عید ہے اور گھر والے یاد آتے ہیں
اب تو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہم قافلے سے بچھڑ چکے ہیں، اس کاررواں سے الگ ہو چکے ہیں، جس کا ہر فرد پیار، محبت، دوستی، خوشی اور غمی کی لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ میری جرمنی میں پہلی عید تھی۔
میں 5 یورو کا کالنگ کارڈ لے کر آیا، دل بے چین تھا، امی اور ابو سے بات کرنی تھی، بھائیوں کو دل کا حال بتانا تھا، بہنوں سے عید کے بارے میں پوچھنا تھا۔
پہلے تو عید کے رش کی وجہ سے کال ہی نہیں مل رہی تھی، جب ملی تو بڑی باجی نے فون اٹھایا۔ ’امتیاز سبھی ادھر جمع ہیں، تمہاری ہی باتیں کر رہے تھے۔ امی صبح سے کہہ رہی ہیں کہ پتہ نہیں میرے بیٹے کی عید کیسی گزر رہی ہے، پتہ نہیں اس نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں۔ بتاؤ عید کیسی گزر رہی ہے؟ موج مستیاں کر رہے ہو ناں، کیا پکایا ہے آج۔ بتاؤ ذرا۔‘
میں نے بتانا تھا کہ میں بہت خوش ہوں، عید اچھی گزر رہی ہے لیکن یہ سب کچھ میں کہہ نہ سکا۔ ان کو بھلا کیا پتہ کہ اِدھر ٹائم ملے تو عید پڑھتے ہیں، ورنہ کالج، یونیورسٹی یا پھر دفتر وغیرہ چلے جاتے ہیں۔ انہیں کیا پتہ کہ مسجد جا کر بھی آپ دوسروں کے لیے اجنبی رہتے ہیں اور وہ آپ کے لیے۔
دنیا کے درجنوں ملکوں کے مسلمان گلے ملتے ہیں لیکن ان میں وہ گرمجوشی بھلا کہاں جو پاکستان میں ہے۔ شاید وہ بھی اپنی تنہائی اور اداسی دُور کر رہے ہوتے ہیں اور آپ اپنی۔ یہ 5 منٹ کی ملاوٹ آپ کی عید ہوتی ہے، پھر وہی پرانے دھندے اور گھر کی یادیں کہ وہ عید کس طرح منا رہے ہوں گے۔