ناول کے 2 مرکزی کردار ہیں، جن کے نام قلبِ مومن اور مومنہ سلطان ہیں۔ قلبِ مومن ایک فلم ساز ہے، جس کو بچپن میں خطاطی کا شوق تھا، مگر اس نے یہ مشغلہ پھر ترک کر دیا۔ اس فلم ساز کے والد طحہٰ اور دادا عبدالعلی بھی خطاط تھے۔ اس کے والد نے رقاصہ کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اس سے شادی کرلی، جس پر اس کے دادا کو شدید اعتراض تھا۔ اس رقاصہ کا نام ’حُسنِ جہاں‘ تھا، جس کا اپنے زمانہ عروج کے میک اپ آرٹسٹ سے بھی قلبی تعلق ہوتا ہے۔
وہ اس سے عشق کرتا ہے۔ ان کے ملنے بچھڑنے کی داستان بھی اس ناول کی کہانی کا حصہ ہے۔ گلیمر سے بھرپور فلم ساز پوتے کو دادا روحانیت پر مبنی فلم بنانے کا چیلنج دیتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب تم یہ فلم بناو گے تو تمہیں سب چھوڑ جائیں گے اور ایسا ہوتا بھی ہے لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ فلم اس کی زندگی بدل دیتی ہے اور بہت کامیابیاں بھی سمیٹتی ہے۔
دوسرے مرکزی کردار میں ایک لڑکی مومنہ سلطان ہے، جو ایک میک اپ آرٹسٹ کی بیٹی ہے، اسے اداکاری کی بجائے خطاطی میں دلچسپی ہے، مگر وہ اپنی غریبی کے ہاتھوں تنگ اور چھوٹے بھائی کی بیماری کے علاج کی غرض سے دل پر پتھر رکھ کر اداکاری کرتی ہے۔ اس راستے میں وہ شوبزنس کے اچھے بُرے لوگوں سے ٹکراتی ہے، اس کے دوست احباب، منگیتر، رشتے دار، سب ایک ایک کرکے اس کی زندگی میں آتے جاتے ہیں۔
شوبزنس میں ایکسٹرا کے طور پر کام کرتے کرتے ایک بار ڈرامائی انداز میں اس کو ہولی وڈ کی فلم مل جاتی ہے اور وہ اس فلم کی بدولت فلمی دنیا کا سب سے بڑا آسکر ایوارڈ بھی جیت لیتی ہے۔ ایک مقامی فلم ساز نے اس کی بے عزتی کی ہوتی ہے، لیکن وہ اس کے ساتھ صرف اس لیے کام کرنے کی حامی بھرتی ہے کیونکہ اس فلم کا موضوع روحانیت ہوتا ہے۔
ناول کے ذیلی کرداروں میں ہیروئن کے چھوٹے بھائی جہانگیر اور والد سلطان کے علاوہ دیگر کرداروں میں
ماسٹر ابراہیم (ہیروئن کا استاد) رشنا قدوائی (ٹی وی اینکر) داؤد (قلب مومن کا اسسٹنٹ) نشا (اداکارہ) جھومر (خواجہ سرا) شکور (گھریلو ملازم) نیہا (قلبِ مومن کی معشوقہ) اقصٰی (اداکارہ، مومنہ کی دوست اور داؤد کی ہونے والی بیوی) ضوفی (نیہا کا بوائے فرینڈ) شیلی (صحافی) ٹینا (قلبِ مومن کی اسسٹنٹ) فیصل (مومنہ کا پہلا پیار) اور ایسے کئی چھوٹے چھوٹے کردار ہیں، جن کے ذریعے کہانی کی بنت کرکے ناول کا خاکہ ترتیب دیا گیا ہے۔ میں یہاں کچھ مکالمے یا ناول کا اقتباس ضرور پیش کرتا، لیکن ناشر جو خود ناول نگار عمیرہ احمد ہی ہیں، ان کی طرف سے ناول کے ابتدائی صفحے پر سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ کتاب کے کسی بھی حصے کو نقل کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ کتاب میں کم لیکن کئی جگہ پر پروف ریڈنگ اور قواعد کی غلطیاں ہیں۔
اس ناول کی ڈرامائی تشکیل بھی ہوگئی ہے اور بہت جلد ٹیلی وژن سے نشر ہوجائے گا، جس میں حمزہ علی عباسی، کبرٰی خان سمیت کئی نامور فنکار کام کریں گے۔ عمیرہ احمد نے اپنی کتابوں کی ویب سائٹ پر کتابوں کی فروخت کے ساتھ ساتھ اس ناول کے آڈیو حصے بھی مہیا کیے ہیں، جہاں اس ناول کے ابتدائی ابواب سماعت بھی کیے جاسکتے ہیں۔
حاصلِ مطالعہ اس ناول میں کرداروں کی کیمسٹری بہت اچھی بنائی گئی ہے، تصوف اور محبت کے رنگوں میں لکھی ہوئی کہانی میں سب سے عجیب بات ہر کردار کا متضاد رویہ ہے، وہ اس طرح کہ خطاط خاندان میں صرف خطاطی ہوتی تھی، پھر وہیں رقص اور فلم سازی کی گنجائش بھی نکل آئی۔ ہیرو کا دادا طویل عرصے تک اپنے بیٹے اور بہو کے خلاف رہا اور جب بیٹا گھر اور خاندان بلکہ دنیا چھوڑ کر چلا گیا تو اسی دادا نے بہو کو نیک ترین عورت کا درجہ دے دیا۔
ہیروئن کو اداکاری اور شوبزنس سے نفرت تھی، لیکن جب اس کے محبوب نے اس کو شادی کی پیشکش کی اور اس کے والدین کا خرچہ برداشت کرنے کا بھی وعدہ کیا تو وہ اس کو چھوڑ کر شوبزنس کی دنیا میں چلی گئی۔ ہیرو کو شوبزنس میں سب سے زیادہ نفرت جس اداکارہ سے تھی، وہ آخر میں دل و دنیا کی کنجی اسی کے قدموں میں رکھتا ہوا نظر آیا۔ ہیروئن بھی جس کو اپنے چھوٹے بھائی کی موت کا ذمے دار سمجھتی تھی، اسی کو خوابوں کی منزل بنالیا۔ پورے ناول میں ہر کردار اسی تضاد کے ہمراہ دکھائی دے گا۔
منظر نگاری اور حالات و واقعات کے بیان میں سطحی پن بھی اپنی حدوں کو چُھو رہا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ فکشن حقیقت سے دُور ہوتا ہے، مگر جھوٹ کا پلندہ بھی نہیں ہونا چاہیے، اور خاص کر تب جب جبکہ بات بھی سماج اور حقیقی زندگی کی ہو رہی ہو۔ تضاد کو کرداروں کا تصادم بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں دلچسپی بڑھانے کے لیے کلیش کی تکنیک استعمال کرنا تو ٹھیک ہے، لیکن اس کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ قاری کے لیے وہ کلیش کہیں کنفیوژن میں تبدیل ہوجائے۔
پس منظر پاکستان میں اردو ادب کے منظر نامے پر 2 دہائیوں میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور وہ یہ کہ کلاسیکی اہمیت کے حامل قلم کار ایک ایک کرکے رخصت ہوتے چلے گئے اور ان کی جگہ لینے والوں میں اکثریت ان کی تھی، جنہیں ہم ڈائجسٹ کے قلم کار کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں ادبی پیمانے پر ڈائجسٹ کو کبھی ادب تسلیم نہیں کیا گیا، اس کو آج کے دور کے مطابق پاپولر لٹریچر کہا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود ’سب رنگ‘ جیسا ادبی ذوق کا حامل معیاری ڈائجسٹ بھی اردو دنیا میں عشاقِ ادب کی دلچسپی کا مرکز بنا رہا۔
یہ بات حقیقت سے قریب تر ہے، ڈائجسٹ کے لکھنے والے اپنی سطح سے اوپر اٹھنے میں ناکام رہے اور اردو ادب کے ادبی خلا سے ان کو بھرپور موقع ملا۔ انہوں نے ادبی منظرنامے اور ٹیلی وژن ڈرامے کی خالی جگہوں کو پُر کیا اور جس سطحی پن سے اردو کے اہلِ ادب خوف کھاتے تھے، وہ خوف پورے معاشرے پر حاوی ہوکر اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے لگا، نتیجے میں ناول جیسی صنف بھی ڈائجسٹ کی سطح تک آگئی اور ٹیلی وژن ڈراما بھی ہر وقت روتی ہوئی عورت کی کہانیوں تک محدود ہوگیا۔ موجودہ ادبی و ڈرامائی منظرنامہ اسی کی مرہون منت ہے۔
خرم سہیل
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔