پاکستان

نیب کا مقصد صرف پکڑ دھکڑ نہیں،مجرموں کو سزا دلوانا بھی ہے، چیف جسٹس

19 سال سے ملزم کو بغیر ثبوت کے رگڑا لگایا جارہا ہے، نیب کے اسی رویے سے لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، چیف جسٹس آصف سعید
|

چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر ریمارکس دیے ہیں کہ نیب کا کام صرف پکڑ دھکڑ نہیں بلکہ بدعنوان عناصر کو سزا دلوانا بھی ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملزم عطااللہ کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ملزم پر جس عہدے کی بنیاد پر کرپشن کا الزام ہے نیب کے پاس اس کا ثبوت تک نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب آخر کرتا کیا ہے؟ کیا اس کا مقصد صرف لوگوں کے خلاف بغیر ثبوت کیس بنانا ہے؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ 19 سال سے ملزم کو بغیر کسی ثبوت کے رگڑا لگایا جا رہا ہے، نیب کے اسی رویے کی وجہ سے لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہورہے ہیں۔

چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیے کہ نیب کا مقصد صرف پکڑ دھکڑ نہیں بلکہ ٹھوس شواہد کے ساتھ کیسز بنا کر بدعنوان عناصر کو سزا دلوانا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے نیشنل بینک کے کیشیئر ملزم عطا اللہ کی بریت سے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیب کی اپیل مسترد کردی۔

واضح رہے کہ ہائی کورٹ نے ملزم کو 4 سال قبل بری کردیا تھا۔

ڈی ایس پی کی بریت کے خلاف نیب کی درخواست مسترد

دوسری جانب سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات کا سامنا کرنے والے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) جہان خان کی بریت کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کردیا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب کی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کی بریت کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا جس ملزم کے پاس 80 لاکھ سے زائد اثاثے تھے اور 46 لاکھ کی پراپرٹی خریدی، تاہم یہ جائیداد ان کے والد ، بھائی اور بہن نے انہیں دی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی، تاہم ہائی کورٹ نے شواہد کو مدِنظر رکھتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر جہاں خان کو بری کردیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، پھر چاہے کوئی شخص بری ہو یا جیل میں جائے، ہم نے تو قانون اور شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ڈی ایس پی کی بریت کے خلاف نیب کی درخواست مسترد کردی۔