گزشتہ چند ہفتوں کے دوران حمزہ شریف قومی احتساب بیورو (نیب) کی توجہ حاصل کرنے والے شریف خاندان کے ایک اور فرد بن چکے ہیں اور انہیں گرفتار کرنے کی 2 ناکام کوششیں بھی کی جاچکی ہیں۔ 5 اپریل جمعے کے روز گرفتاری کی پہلی کوشش ان کے سیکیورٹی محافظوں نے ناکام بنا دی جنہوں نے ان کی رہائش گاہ کے دروازے بند کردیے تھے۔ ایک دن بعد جب دوسری بار گرفتاری کی کوشش کی گئی تو نیب افسران اور شریف خاندان کے حامیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی اور 2 لوگ زخمی ہوگئے۔
حمزہ شریف نے اس وقت حفاظتی ضمانت حاصل تو کر رکھی ہے لیکن ان کا گھیرا اب بھی تنگ ہے۔ انہیں 3 مقدمات کا سامنا ہے۔
ان میں سے ایک معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے (اس بنا پر ان کے گرفتاری وارنٹ بھی جاری ہوئے تھے) پر درج کیا گیا، دوسرا کیس پنجاب صاف پانی منصوبے سے متعلق ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر ٹھیکے دیے اور لوگوں کو ملازمتوں پر رکھا۔ تیسرے مقدمے کا تعلق شریف خاندان کے خاندانی کاروبار یعنی رمضان شوگر ملز سے ہے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ جب ان کے والد وزیرِ اعلیٰ تھے اس دوران انہوں نے عوامی فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے فیکٹری کے لیے نالہ تعمیر کروایا۔ اب جبکہ حمزہ شریف کو ایک ہی وقت میں مختلف عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا ہے ایسے میں ان کا سیاسی مستقبل غیر یقینی کی زد میں نظر آنے لگا ہے۔
دراصل انہیں پارٹی کا سب سے بڑا عہدہ ملنے کی پیش گوئی اس بنا پر کی گئی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہمیشہ شریف خاندان کے ہاتھوں میں رہتی آئی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں پارٹی کے کئی سینئر سیاستدان ساتھ چھوڑ کر جا بھی چکے ہیں۔
2018ء کے انتخابات کے موقعے پر پارٹی چھوڑ کر جانے والے سیاستدانوں کا سلسلہ اس وقت تواتر کے ساتھ جاری رہا جب مسلم لیگ (ن) کے کئی اہم نام عمران خان کے کیمپ میں شامل ہوگئے۔ اس وقت سے لے کر آج تک پارٹی کے لیے سیاسی صورتحال سنگین تر ہوتی چلی گئی، کیونکہ ایک طرف شریف خاندان کے سینئر افراد کے خلاف کرپشن مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری جانب نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کی طبی حالت غیر یقینی کا شکار بنی رہتی ہے۔
شریف خاندان پر کڑا وقت پہلی بار نہیں آیا، خاص طور پر بات جہاں تک حمزہ شریف کی ہے، کیونکہ انہوں نے بینظیر بھٹو کی دوسری دورِ حکومت میں محض 19 برس کی عمر میں 6 ماہ قید میں گزار کر سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ 25 سال کی عمر میں انہیں ایک بار پھر مشکل وقت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کے تقریباً تمام بڑے افراد کو جلا وطن کردیا گیا، تب حمزہ کاروبار کا خیال اور مسلم لیگ (ن) کو یکجا رکھنے کے لیے شریف خاندان کے واحد فرد کے طور پاکستان میں ہی مقیم رہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ بالخصوص پنجاب کے سیاسی منظرنامے میں حمزہ کا اثر و رسوخ بڑھا کیونکہ انہوں نے سیاسی اعتبار سے مشکل دور میں (2001ء سے 2007ء تک) پارٹی میں تحرک قائم رکھا۔ 2008ء کے بعد جب مرکزی پنجاب کی سیاست سنبھالنے کے لیے وہ اپنے والد کے ساتھ کھڑے ہوئے تب نچلی سطح کے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے ساتھ انہوں نے ذاتی تعلقات استوار کیے اور یوں ایک بار پھر ان کا نام ابھر کر سامنے آیا۔
پھر اچانک، تھوڑی بہت تبدیلی آئی اور نواز شریف نے مریم نواز کی بطور اپنی سیاسی جانشین تربیت شروع کردی۔ اس وجہ سے چچا زاد بھائی اور بہن کے درمیان رسہ کشی کا آغاز ہوگیا اور چند تناؤ بھرے حالات بھی سامنے آئے۔
اطلاعات کے مطابق نواز شریف کی نااہلی کے بعد قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشست کے لیے 2017ء میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران حمزہ شریف نے مریم نواز کے فیصلوں کی مخالفت کی۔ اسی اختلاف کے باعث بالآخر مریم نے انتخابی مہم کی ساری ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے لی۔
ہیرالڈ میگزین
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔