نقطہ نظر

کیا حمزہ شریف کنارے سے لگ گئے؟

حمزہ شریف نے اس وقت حفاظتی ضمانت حاصل تو کر رکھی ہے لیکن ان کا گھیرا اب بھی تنگ ہے۔ انہیں 3 مقدمات کا سامنا ہے۔

زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب حمزہ شہباز کو شریف خاندان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مستقبل کے چہرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ چچا نواز شریف اور چچا زاد بہن مریم نواز کو نااہل قرار دیے جانے اور اپنے والد شہباز شریف کے کرپشن مقدمات کے گرداب میں پھنسنے کے بعد ایک موقعے پر وہ مستقبل میں خاندان اور پارٹی کی قیادت کے لیے فطری امیداور نظر آنے لگے۔

ایک ایسے رہنما جو اپنے خاندان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاسی ناؤ کو پار لگانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اب حالیہ چند واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اب خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پیر مارنے پڑسکتے ہیں۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران حمزہ شریف قومی احتساب بیورو (نیب) کی توجہ حاصل کرنے والے شریف خاندان کے ایک اور فرد بن چکے ہیں اور انہیں گرفتار کرنے کی 2 ناکام کوششیں بھی کی جاچکی ہیں۔ 5 اپریل جمعے کے روز گرفتاری کی پہلی کوشش ان کے سیکیورٹی محافظوں نے ناکام بنا دی جنہوں نے ان کی رہائش گاہ کے دروازے بند کردیے تھے۔ ایک دن بعد جب دوسری بار گرفتاری کی کوشش کی گئی تو نیب افسران اور شریف خاندان کے حامیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی اور 2 لوگ زخمی ہوگئے۔

حمزہ شریف نے اس وقت حفاظتی ضمانت حاصل تو کر رکھی ہے لیکن ان کا گھیرا اب بھی تنگ ہے۔ انہیں 3 مقدمات کا سامنا ہے۔

  • ان میں سے ایک معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے (اس بنا پر ان کے گرفتاری وارنٹ بھی جاری ہوئے تھے) پر درج کیا گیا،
  • دوسرا کیس پنجاب صاف پانی منصوبے سے متعلق ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر ٹھیکے دیے اور لوگوں کو ملازمتوں پر رکھا۔
  • تیسرے مقدمے کا تعلق شریف خاندان کے خاندانی کاروبار یعنی رمضان شوگر ملز سے ہے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ جب ان کے والد وزیرِ اعلیٰ تھے اس دوران انہوں نے عوامی فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے فیکٹری کے لیے نالہ تعمیر کروایا۔

اب جبکہ حمزہ شریف کو ایک ہی وقت میں مختلف عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا ہے ایسے میں ان کا سیاسی مستقبل غیر یقینی کی زد میں نظر آنے لگا ہے۔

دراصل انہیں پارٹی کا سب سے بڑا عہدہ ملنے کی پیش گوئی اس بنا پر کی گئی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہمیشہ شریف خاندان کے ہاتھوں میں رہتی آئی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں پارٹی کے کئی سینئر سیاستدان ساتھ چھوڑ کر جا بھی چکے ہیں۔

2018ء کے انتخابات کے موقعے پر پارٹی چھوڑ کر جانے والے سیاستدانوں کا سلسلہ اس وقت تواتر کے ساتھ جاری رہا جب مسلم لیگ (ن) کے کئی اہم نام عمران خان کے کیمپ میں شامل ہوگئے۔ اس وقت سے لے کر آج تک پارٹی کے لیے سیاسی صورتحال سنگین تر ہوتی چلی گئی، کیونکہ ایک طرف شریف خاندان کے سینئر افراد کے خلاف کرپشن مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری جانب نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کی طبی حالت غیر یقینی کا شکار بنی رہتی ہے۔

شریف خاندان پر کڑا وقت پہلی بار نہیں آیا، خاص طور پر بات جہاں تک حمزہ شریف کی ہے، کیونکہ انہوں نے بینظیر بھٹو کی دوسری دورِ حکومت میں محض 19 برس کی عمر میں 6 ماہ قید میں گزار کر سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ 25 سال کی عمر میں انہیں ایک بار پھر مشکل وقت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کے تقریباً تمام بڑے افراد کو جلا وطن کردیا گیا، تب حمزہ کاروبار کا خیال اور مسلم لیگ (ن) کو یکجا رکھنے کے لیے شریف خاندان کے واحد فرد کے طور پاکستان میں ہی مقیم رہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ بالخصوص پنجاب کے سیاسی منظرنامے میں حمزہ کا اثر و رسوخ بڑھا کیونکہ انہوں نے سیاسی اعتبار سے مشکل دور میں (2001ء سے 2007ء تک) پارٹی میں تحرک قائم رکھا۔ 2008ء کے بعد جب مرکزی پنجاب کی سیاست سنبھالنے کے لیے وہ اپنے والد کے ساتھ کھڑے ہوئے تب نچلی سطح کے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے ساتھ انہوں نے ذاتی تعلقات استوار کیے اور یوں ایک بار پھر ان کا نام ابھر کر سامنے آیا۔

پھر اچانک، تھوڑی بہت تبدیلی آئی اور نواز شریف نے مریم نواز کی بطور اپنی سیاسی جانشین تربیت شروع کردی۔ اس وجہ سے چچا زاد بھائی اور بہن کے درمیان رسہ کشی کا آغاز ہوگیا اور چند تناؤ بھرے حالات بھی سامنے آئے۔

اطلاعات کے مطابق نواز شریف کی نااہلی کے بعد قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشست کے لیے 2017ء میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران حمزہ شریف نے مریم نواز کے فیصلوں کی مخالفت کی۔ اسی اختلاف کے باعث بالآخر مریم نے انتخابی مہم کی ساری ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے لی۔

دونوں کے اختلاف اس وقت اور بھی واضح ہوگئے جب ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز شریف نے اپنی تقریر میں حمزہ شریف کا نام نہیں لیا، اور ایسا نہ ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے حمزہ شہباز کے نعرے لگانے شروع کردیے اور اس وقت تک لگاتے رہے جب تک نواز شریف ان کا نام لینے پر مجبور نہیں ہوگئے تھے۔

تاہم ان مسائل کے باوجود شریفوں نے ہمیشہ اپنی اندرونی سیاست کو عوام کے سامنے نہیں آنے دیا۔ یہ بات انہیں ایک مضبوط خاندانی سیاسی سلسلہ تو بناتی ہے لیکن یہ ان کی جماعت کو کمزور کردیتی ہے۔ اب جبکہ خاندان کی پرانی نسل سیاسی منظرنامے سے غائب ہوتی جا رہی ہے اور نئی نسل کو قانون کے لمبے ہاتھوں سے دُور رہنے میں مشکل پیش آ رہی ہے، ایسے میں مسلم لیگ (ن) کو جانشینی کے حوالے سے سنگین مسئلہ لاحق دکھائی دیتا ہے۔

حال ہی میں شہباز شریف کی جانب سے قومی اسمبلی کے پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی چیئرمین شپ کے عہدے سے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دینے کے بعد بحران اور بھی زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے، حالانکہ یہ وہی عہدہ ہے جس کے حصول کے لیے انہوں نے 6 ماہ جدوجہد کی تھی۔

شہباز شریف کے لندن میں قیام کے مقررہ شیڈول میں توسیع کردی گئی ہے، ایسے میں مسلم لیگ (ن) خود کو دوبارہ مرتب کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ اس صورتحال میں حمزہ شریف کی نمایاں حیثیت نظر نہیں آ رہی اور شاید اس پیش رفت نے ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ پہلے ہی کردیا ہے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر ہرالڈ میگزین کے مئی 2019 کے شمارے میں شائع ہوا۔

ہیرالڈ میگزین
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔