امیدواروں پر جھپٹنے کی ان باتوں کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ اگر مودی کو دوسری بار حکومت مل جائے تو پھر کیا ہوگا؟ اور ایگزٹ پول کی پیش گوئیوں کے برعکس حزب اختلاف کو کھلا میدان مل جائے اور انہوں نے ایک صف میں کھڑے ہو کر گنتی پوری کرلی تو پھر ایسے میں کہاں قدم درست کہاں غلط ثابت ہوسکتا ہے؟
اس منظرنامے کو تقویت پہنچانے کے لیے کانگریس نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر کانگریس مودی کو عہدے سے محروم رکھنے میں مدد کرسکی تو بھی یہ جماعت وزارت عظمی کا عہدہ اپنے پاس رکھنے پر زور نہیں دے گی۔ یوں مودی کو اقتدار سے محروم رکھنے کا عزم اس قدر پختہ پایا جاتا ہے۔ نمبر پورے ہونے کے بعد ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو حزب اختلاف حکومت کو کانگریس کی حمایت ہوسکتی ہے۔
یہاں ایک یا ممکنہ طور پر متعدد باتیں اہم ہیں۔ ایسی کئی کاروباری لابیز ہیں کہ جنہیں انکار کرنا حزب اختلاف میں موجود کئی لوگوں کے لیے مشکل ہو۔ اگر انہوں نے مایاوتی جیسے امیدواروں کو پسند نہ کیا کہ جو ان کے نزدیک ممکنہ طور پر کچھ زیادہ ہی آزاد خیال اور ایسے سماجی اصلاحاتی ایجنڈا رکھتے ہیں جن کو لے کر انہیں خدشات لاحق ہوسکتے ہیں، ایسے میں کیا کیا جائے گا؟ یا پھر، اگر عام آدمی پارٹی یا ممتا بینرجی کو باہر رکھنے پر دباؤ ڈالا گیا تو کیا ہوگا؟
ایسی صورتحال میں چند ناخوشگوار نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مایاوتی راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کمزور کانگریس حکومتوں کو سہارا فراہم کرتی ہیں۔ حزب اختلاف کے لیے گنتی کا یہ کھیل اس وقت تک دشوار گزار راستے کو عبور کرنے کے مصداق بن سکتا ہے جب تک یہ حزب اختلاف کی حمایت میں فراخ دلی کے ساتھ زبردست انداز میں کھڑے نہیں ہوجاتے۔
اگر کمزور حزب اختلاف حکومت وجود میں آتے ہیں، تو پھر انہیں لازماً روزانہ اندرونی طور پر بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا جائے گا اور پارلیمنٹ کے باہر ہندتوا کے گلی کے غنڈوں کی جانب سے شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ سیاسی اور اقتصادی بحران جس کی جڑیں خلیج میں پیوستہ ہیں، ہندوستان پر نہایت سنگین اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گزشتہ بار ایسا عراق کے ساتھ ہوا تھا، لیکن اب سعودی عرب اور اسرائیل کی مدد کے ساتھ ایران امریکا کے نشانے پر ہے، مذکورہ وہی اتحادی ہیں جو صدام حسین اور معمر قذافی کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہوئے تھے۔
عراق کا زوال اس لیے ممکن بنا کیونکہ سویت یونین کو ٹوٹے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ ہندوستان کے لیے تیل کے بڑھتے دام اس کے ساتھ سویت کے زیر قبضہ مارکیٹ کا زوال من موہن سنگھ کی آزاد مارکیٹ پالیسیوں کے ابھار کی وجہ بنا۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر جو خطرات منڈلا رہے ہیں، کیا بھارت انہیں ٹال سکے گا، یا پھر اسی قابلِ رشک جمہوری طاقت کے طور پر یہ لڑائی لڑے گا جو ماضی میں کبھی بھارت ہوا کرتا تھا؟ اس سوال کا جواب ممکن ہے کہ جمعرات کو مل جائے۔
یہ مضمون 21 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔