انتخابات سے قبل ایک سروے کی رپورٹ میں بی جے پی کی شہرت میں کمی کا دعویٰ کیا گیا تھا — فائل فوٹو:رائٹرز
بھارتی انتخابات کے آغاز کے موقع پر ایک دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی تھی جب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھارتی انتخابات میں نریندر مودی کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی کے لیے ’خواہش‘ کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد ملک کی اہم اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حکومت سے وزیر اعظم عمران خان کے اس حالیہ انٹرویو پر وضاحت طلب کی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات اور ایم این اے ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے ایک بیان میں وزیر اعظم کے بیان کو وزیر خارجہ شاہ محمود کے بیان کے متضاد قرار دیا تھا، جس میں وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ نئی دہلی، پاکستان کے خلاف مزید فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
پی پی پی رہنما نے کہا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نریندر مودی کے انتخابی ایجنٹ بن گئے ہیں اور قوم جاننا چاہتی ہے کہ کیوں عمران خان نریندر مودی سے ملاقات کے لیے بیتاب ہیں‘۔
نتائج
بھارتی الیکشن کمیشن کے حتمی نتائج کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا کی 542 نشستوں میں سے 303 پر کامیابی حاصل کرلی، یہ اس کی گزشتہ انتخابات سے بھی بڑی کامیابی ہے۔
بھارت میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 272 نشستیں درکار ہوتی ہیں اور بی جے پی نے انفرادی طور پر مطلوبہ تعداد سے زیادہ حاصل کیں، یوں وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی۔
1984 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی نے ایوان زیریں کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی، بی جے پی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) نے کُل 350 نشستیں حاصل کیں۔
بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس 52 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہی، 2014 میں اس نے 44 سیٹیں جیتی تھیں اور کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) مجموعی طور پر 82 حاصل کر سکا۔
کانگریس کے صدر اور وزیر اعظم کے امیدوار راہول گاندھی کو اترپردیش کے حلقے امیٹھی سے اپنی ہی جیتی ہوئی نشست پر بی جے پی کی سمرتی ایرانی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا، تاہم وہ جنوبی ریاست کیرالا سے جیتنے میں کامیاب رہے۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد نریندر مودی نے نئی دہلی میں بی جے پی کے مرکزی دفتر پر حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کی شاندار کامیابی پر سب کو مبارکباد دی اور انتہائی گرم موسم میں ووٹ ڈالنے والوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں پارٹی کی شاندار کارکردگی کے بعد بھارت کے سیاسی پنڈتوں کو اپنی 20وی صدی کی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے‘، ان کا مزید کہنا تھا کہ 'انتخابی امیدوار سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔
بھارتی وزیر اعظم کو انتخابات میں کامیابی پر جہاں ان کے پاکستانی ہم منصب عمران خان کی طرف سے مبارکباد دی گئی تو وہیں دیگر عالمی رہنماؤں نے انہیں نیک خواہشات کے پیغامات بھیجے۔
بعد ازاں بھارت کی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کے پارٹی صدارت سے مستعفی ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں تاہم پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ استعفے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
علاوہ ازیں ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ بھارت کی نئی پارلیمنٹ کے 40 فیصد سے زائد قانون ساز ریپ اور قتل سمیت کئی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ انتخابی نشستوں پر کامیاب ہونے والے 543 اراکین میں سے کم از کم 233 افراد پر مجرمانہ اقدامات کے مقدمات درج ہیں۔
اس میں مزید بتایا گیا کہ جیتنے والے 539 افراد کے ریکارڈز کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ مجرمانہ کیسز کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد 2004 سے اب تک سب سے زیادہ رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیاب ہونے والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 303 قانون سازوں میں سے 116 مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ایک پر دہشت گردی کے مقدمات بھی درج ہیں۔
کانگریس کے 52 اراکین پارلیمنٹ میں سے 29 پر مقدمات درج ہیں جبکہ کیرالا ریاست سے جیتنے والے قانون ساز دین کوریاکوس پر تنہا 204 مقدمات درج ہیں۔
اے ڈی آر کا کہنا تھا کہ مقدمات کا سامنا کرنے والے قانون سازوں کی تعداد گزشتہ ایک دہائی میں دگنی ہوئی ہے جن میں سے 11 پر قتل، 30 پر گلے کاٹنا اور 3 پر ریپ کا الزام ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی قانون کے مطابق 2 سال یا اس سے زائد کی سزا پانے والے مجرمان پر انتخابات میں حصہ لینے کی پابندی ہے، تاہم چند جرائم میں اس سے استثنیٰ بھی حاصل ہے۔
گزشتہ حکومت کے 185 قانون سازوں میں سے، جنہیں مختلف مقدمات کا سامنا تھا، کسی کو بھی سزا نہیں سنائی گئی جبکہ کئی واپس پارلیمنٹ میں آگئے ہیں۔
لوک سبھا کے اب تک ہونے والے انتخابات
بھارت کے ایوان زیریں کے پہلے انتخابات اپریل 1952 سے مئی 1952 تک جاری رہے اور پہلے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) نے کامیابی حاصل کی اور جواہر لال نہرو وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
دوسرے انتخابات بھی ٹھیک 5 سال بعد ان ہی مہینوں میں 1957 میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور جواہر لال ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بنے۔
لوک سبھا کے تیسرے انتخابات 5 سال بعد مئی اور اپریل 1962 میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس کو فتح حاصل ہوئی اور جواہر لال نہرو وزیر اعظم بنے، تاہم 1964 میں ان کی موت کے بعد گلزاری لال نندا نگراں وزیر اعظم بنے، وہ نہرو کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے۔
بعد ازاں گلزاری لال نندا کو کانگریس کی قیادت نے جون 1964 میں ہٹا کر لال بہادر شاستری کو وزیر اعظم بنایا، تاہم وہ بھی 1966 میں چل بسے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس قیادت نے گلزاری لال نندا کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سونپی گئی۔
مزید پڑھیں: بھارتی انتخابات: پریانکا گاندھی کا نریندر مودی کے خلاف انتخاب لڑنے کا عندیہ
چوتھے انتخابات مارچ اور اپریل 1967 میں منعقد ہوئے اور اس مرتبہ کانگریس کو کئی سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن پھر بھی وہ اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب گئی اور ستیا نارائن سنہا وزیر اعظم بنے۔
پانچویں لوک سبھا کے انتخابات مارچ اور اپریل 1971 میں ہوئے اور اس مرتبہ اندرا گاندھی نے کانگریس کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو پھر سے حاصل کیا اور اکثریت سے مضبوط وزیر اعظم بنیں، وہ بھارت کی پہلی اور اب تک کی واحد خاتون وزیر اعظم بھی ہیں۔
لوک سبھا کے چھٹے انتخابات مارچ اور اپریل 1977 میں ایک ایسے وقت میں ہوئے جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975 میں سول ایمرجنسی نافذ کر رکھی تھی اور ان کی پارٹی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، انتخابات کے دوران ان کی پارٹی سے ہی جدا ہونے والے مرار جی ڈیسائی جنتا پارٹی کے تحت وزیر اعظم بنے، تاہم انہوں نے پارٹی کی خواہش پر 1979 میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا اور بعد میں چرن سنگھ وزیر اعظم بنے۔
لوک سبھا کے ساتویں انتخابات 1980 میں کرائے گئے اور اندرا گاندھی دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم بنیں، تاہم اکتوبر 1984 میں انہیں قتل کردیا گیا اور ان کی ہلاکت کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا۔
لوک سبھا کے آٹھویں انتخابات دسمبر 1984 میں کرائے گئے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس کی جیت ہوئی اور راجیو گاندھی وزیر اعظم بنے۔
نویں لوک سبھا انتخابات 1989 میں کرائے گئے اور ان میں بھی کانگریس کو کامیابی ملی اور راجیو گاندھی ایک بار پھر وزیر اعظم بنے، تاہم اسی سال انہیں برطرف ہونا پڑا اور وشوناتھ پرتاب سنگھ وزیر اعظم بنے۔
لوک سبھا کے دسویں انتخابات 1991 میں ہوئے اور انتخابی مہم کے دوران راجیو گاندھی کو ایک خود کش حملے میں قتل کردیا گیا، انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کے ایک دن بعد قتل کیا گیا تاہم الیکشن ملتوی نہیں ہوئے اور ملکی حالات کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے کانگریس اور جنتا دل پارٹی نے کمزور اتحادی حکومت بنائی اور چندر شیکھر وزیر اعظم بنائے گئے۔
چندر شیکھر کے بعد کچھ دنوں کے لیے ارجن سنگھ کو وزیر اعظم بنایا گیا اور بعد ازاں نرسمہا راؤ کو جون 1991 میں وزیر اعظم بنایا گیا اور وہ گاندھی خاندان کے بعد پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور وہ 1996 تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہے، ان کی دور حکومت میں بابری مسجد کو شہید کرنے کا سانحہ بھی پیش آیا۔
لوک سبھا کے 11 ویں انتخابات 1996 کو ہوئے اور ایک مرتبہ پھر پہلے نرسمہا راؤ وزیر اعظم منتخب ہوئے، جس کے بعد رام ولاس پاسوان اور بعد ازاں اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بنے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی انتخابات: گوگل اشتہار پر کروڑوں روپے خرچ، مودی کا دوسرا نمبر
اٹل بہاری واجپائی کو بھی جون کے بعد ہٹا دیا گیا اور ایچ بھی دیوے گوڑا کو وزیر اعظم بنایا گیا، ان کے وزیر اعظم بننے کو بھارتی سیاست میں معجزاتی وزیر اعظم بھی کہا جاتا ہے۔
ایچ بی دیوے گوڑا کے بعد 1997 میں اندر کمار (آئی کے) گجرال بھارت کے وزیر اعظم بنے اور وہ 1998 تک اس عہدے پر براجمان رہے۔
بارہویں لوک سبھا انتخابات 1998 میں ہوئے اور بھارتی جنتا پارٹی کے اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بنے۔
لوک سبھا کے تیرہویں انتخابات اکتوبر 1999 میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بنے۔
لوک سبھا کے 14 ویں انتخابات 2004 میں ہوئے، جس میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور من موہن سنگھ وزیر اعظم بنے۔
لوک سبھا کے 15 ویں انتخابات 2009 میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر من موہن سنگھ وزیر اعظم بنے۔
لوک سبھا کے 16 ویں انتخابات 2014 میں ہوئے اور حیران کن طور پر بی جے پی نے اکثریت حاصل کی اور نریندر مودی پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے۔
لوک سبھا کے 17 ویں انتخابات 11 اپریل سے 19 مئی 2019 تک جاری رہیں گے، 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور جون میں نئی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
مزید کے لیے کلک کریں
نوٹ: رپورٹ کا یہ حصہ ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کی 11 اپریل 2019 کو شائع ہونے والی خبر سے شامل کیا گیا ہے۔