مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر اقوام متحدہ سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ
سری نگر: مقبوضہ کشمیر کی سول سوسائٹی نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وادی میں قابض بھارتی فورسز کی جانب سے بدترین تشدد کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرے۔
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق جموں اور کشمیر اتحاد سول سوسائٹی (جے جے سی سی ایس) اور لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن (اے پی ڈی پی) نے مشترکہ طور پر جاری کردہ تفصیلی رپورٹ میں 1990 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فورسز کی ریاستی دہشتگردی کی کارروائیوں کے بارے میں بتایا ہے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں 1947 سے مقامی افراد کے حق آزادی کو دبانے کے لیے استعمال کیے جانے والے تشدد کے مختلف مراحل کی نشاندہی بھی کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 'ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے تشدد کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے قانونی، سیاسی اور اخلاقی معافی فورسز کو حاصل ہوتی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک بھی کیس پروسیکیوشن کی جانب سے سامنے نہیں آیا'۔
مزید پڑھیں: ’بھارت! مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرو!‘
مذکورہ رپورٹ، جو کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد تیار کی گئی اور 5 سو 60 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر سے تحقیقات کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
گذشتہ سال جون میں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ زید رعد الحسین نے کشمیر میں ہراساں کرنے کے واقعات کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
زید رعد الحسین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کشمیر میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے پہلی مرتبہ متنازع علاقے کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ جاری کی گئی تھی۔
انسانی حقوق کی جانب سے جاری رپورٹ میں کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی جانب کی جانے والی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: 'کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا کی خاموشی افسوس ناک'
اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جولائی 2016 میں بھارت کی جانب سے 22 سالہ حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کو قتل کیے جانے کے بعد زید رعد الحسین نے دونوں ممالک کی حکومتوں کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔
اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ برہان وانی کی موت کے بعد ہونے والے ’بڑے اور بے مثال‘ مظاہروں پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کشمیر میں ’غیر مشروط‘ رسائی کا مطالبہ کیا گیا لیکن کوئی حکومت اس پر راضی نہیں ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا تھا کہ انسانی حقوق کے دفتر نے اس خطے کی ریموٹ نگرانی کا آغاز کیا اور جنوری 2016 سے رواں سال اپریل تک ہونے والے مبینہ واقعات پر ایک رپورٹ تیار کی گئی۔
اس رپورٹ میں اصل توجہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر مرکوز کی گئی، جس میں بھارتی فوج پر الزام لگاتے ہوئے اسے 145 افراد کے غیر قانونی قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، اس کے علاوہ اسی عرصے میں عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے 20 افراد کو قتل کیا گیا۔
مزید پڑھیں: کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، واقعات کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کا مطالبہ
اس بارے میں زید رعد الحسین کا کہنا تھا کہ ’یہ ضروری ہے کہ بھارتی حکام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کے زیادہ استعمال کی متعدد مثالوں کی تکرار سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کریں‘۔
1989 سے متعدد مسلح گروپ بھارتی فوج اور ہمالیہ کے علاقوں میں تعینات پولیس سے لڑتے آئے ہیں اور وہ پاکستان سے انضمام یا کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں، اس لڑائی کے دوران اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں، جس میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔
کشمیر میں جاری اس تشدد میں گزشتہ دہائی میں تیزی سے کمی آئی تھی لیکن گزشتہ سال بھارتی فوج کے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن آل آؤٹ کے نتیجے میں 350 سے زائد اموات ہوئیں اور وادی میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔