معیشت کی زبوں حالی میں نیب کا کوئی قصور نہیں، چیئرمین نیب
قومی احتساب بیورو(نیب) کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ معیشت کی زبوں حالی میں نیب کا کوئی قصور نہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ جب سے عہدہ سنبھالا ہے تو کبھی بھی اپنی ذات پر ہونے والی تنقید پر کوئی گلہ نہیں کیا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس طرح کے کاموں میں اس طرح تو ہوتا ہے لیکن دو تین دن سے صورتحال ٹھیک نہیں جس پر بحیثیت چیئرمین نیب میرا خاموش رہنا ادارے کے لیے مناسب نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ میری ذات کے حوالے سے کوئی بات ہوتی تو میں کچھ نہیں کہتا اور آج یہاں موجود نہیں ہوتا۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ نہ میں ماہر معاشیات ہوں، سیاستدان ہوں نہ میرا ساری زندگی سیاست سے کوئی تعلق رہا، سیشن جج سے آغاز کیا، قائم مقام چیف جسٹس پاکستان رہا اس کے بعد جو بھی میرا کیریئر ہے وہ ایک کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہے۔
مزید پڑھیں: نیب کا ریٹائرڈ سرکاری افسر کے گھر پر چھاپہ، 33 کروڑ روپے برآمد
ان کا کہنا تھا کہ میں 2 چیزوں پر بات کروں گا، پہلی بات تو یہ ہے کہ بزنس کمیونٹی کو بلاجواز ڈرایا جارہا ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی زبوں حالی میں نیب کا ہاتھ ہے۔
نیب اور معیشت ساتھ ساتھ چلیں گے
چیئرمین نیب نے کہا کہ یہ بڑا بلند بانگ دعویٰ ہے کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، نیب اور معیشت ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں اور چلیں گے لیکن نیب اور کرپشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب نے معیشت کے خلاف آج تک کوئی اقدام نہیں کیا، معیشت کی زبوں حالی میں نیب کا کوئی قصور نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتائج سب کے سامنے ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا حکومت کا کام تھا، ڈالر کی قیمت بڑھنے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے اور اس کے نتائج میں نیب کا کیا قصور ہے؟ اس سب میں نیب کہاں سے آتا ہے؟کہ یہ سب نیب کی وجہ سے ہورہا ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ معاشی سرگرمیاں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب آپ کے پاس جامع پالیسی ہو اور اس پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ افرادی قوت ہو، اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہو کہ آپ کے پاس پیسہ ہو۔
ان کا کہنا تھا معاشی پالیسیاں اپنے نتائج دکھاتی ہیں اور کاروباری سرگرمیاں کامیاب ہوتی ہیں، گیس، بجلی، پانی، امن و امان کی صورتحال ان میں سے کس شعبے میں نیب کہاں سے آجاتا ہے،ان میں سے کس جگہ پر نیب کا عمل دخل ہے جس وجہ سے ہر صبح شام ہم پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ بزنس کمیونٹی خائف ہے۔
چیئرمین نے کہا کہ نیب نے آج تک ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جو ملک کی معیشت کے لیے تباہ کن یا اس پر کسی بھی طریقے سے اثر انداز ہوتا۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب انسان دوست ادارہ ہے، ہمارا کام بزنس کمیونٹی کو تحفظ دینا ہے اور دے رہے ہیں۔
بزنس کمیونٹی سے نیب کے خلاف ایک شکایت نہیں ملی
انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ جب یہ شکایت ملی کہ بزنس کمیونٹی خائف ہے اور نیب ان کہ سرگرمیوں پر اثر انداز ہورہی ہے تو میں نے چیئرمین چیمبر آف کامرس سے درخواست کی کہ میں اپنا نقطہ نظر بیان کروں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ میں نے آدھا گھنٹہ وہاں بات چیت کی اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس سے ایک شکایت موصول نہیں ہوئی جس میں تمام چیمبرز کے نمائندے شامل تھے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ میں نے وہاں یہ اعلان کیا کہ میرے نیب کے دفتر میں پہنچنے سے پہلے ایک ڈیسک تشکیل دے دیا جائے گا، ایک ڈائریکٹر کو اس کا سربراہ بنایا گیا اور ساتھ میں یہ ہدایت کی گئی کہ کسی بھی کاروباری شخص کی جو بھی شکایت ہوگی وہ فوری مجھے پیش کی جائے گی اور جب تک اس کا مداوا نہیں کیا جائے گا میں دفتر سے نہیں جاؤں گا۔
یہ بھی پڑھیں: نیب کا آصف زرادری کے خلاف 8 مقدمات میں الزامات ثابت ہونے کا دعویٰ
انہوں نے کہا کہ اس بات کو 3 مہینے ہوگئے اب تک ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی، جب شکایت موصول ہی نہیں ہوئی تو میں اس کا ازالہ کیسے کروں گا۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ تمام ریجنل آفسز کو ہدایت کی گئی کہ جب بھی کسی بھی کاروباری شخص کی شکایت آئے ڈائریکٹرجنرل اسے خود دیکھے اور اگر وہ یہ محسوس کرے کہ اس کے مینڈیٹ میں کوئی چیز نہیں آرہی تو وہ مجھ سے رابطہ کریں گے اور 24 سے 48 گھنٹے میں شکایت کا مداوا کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی کسی بڑے کاروباری شخص کو ہراساں نہیں کیا نہ ہی ہماری ہراساں کرنے کی کوئی پالیسی رہی ہے۔
جب 5 لاکھ کی جگہ 50 کروڑ خرچ کرتے ہیں تو پگڑیوں کا خیال نہیں آتا؟
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ مجھے صرف یہ بتائیں کہ جہاں صرف 5 ہزار خرچ ہونے ہیں وہاں اگر 50 لاکھ لگیں تو کیا نیب خاموش تماشائی بنا رہے گا؟ مودبانہ سوال نہیں پوچھے گا کہ یہ کیسے ہوا اور کیا اس سوال سے پگڑیاں اچھل جاتی ہیں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ جب 5 ہزار کی جگہ 50 لاکھ اور 5 لاکھ کی جگہ 50 کروڑ خرچ کرتے ہیں اس وقت آپ کو اپنی پگڑیوں کا خیال ہونا چاہیے نا کہ اس وقت جب سوال کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک بہت غریب ہے 90 ارب ڈالر کا قرضہ بڑھ کر 100 ارب ڈالر ہوگیا ہے یہ قرضہ ہم نے ہماری آنے والی نسلوں نے ادا کرناہے۔
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے کہا کہ اگر کرپٹ عناصر سے پوچھ لیا جاتا ہے کہ آپ نےایسا کیوں کیا تو اس میں میرا خیال ہے کہ یہ نہ کوئی اخلاقی غلطی ہے نہ کسی جرم کے زمرے میں آتا ہے اور نہ ہی اس سے کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی بحران، حکومتی بحران نہیں ہے قومی بحران ہے اس لیے میں بتارہا ہوں کہ معیشت کی زبوں حالی میں نیب کا کوئی قصور نہیں ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ چند دن سے تواتر سے یہ باتیں ہورہی تھیں کہ نیب کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے جب ان سے سوال کیا جائے تو ایک پراسرار خاموشی چھاجاتی ہے، میں ان تمام اصحاب سے گزارش کروں گا اس مسئلے کوسیاسی نہ بنائیں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ یہ ہمارے قومی مفاد میں نہیں، آپ تنقید کرنا چاہتے ہیں مثبت کریں، تعمیری تنقید کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے۔
ایک خلیجی ملک نے ہمارے توسط سے سرمایہ کاری کرنے کیلئے رابطہ کیا
انہوں نے کہا کہ ریجنل نیب لاہور کے پاس تاجر برادری کے انتہائی نامور افراد عارف حبیب اور میاں منشا کے خطوط موجود ہیں جس میں انہوں نے نہ صرف نیب کی کارکردگی کو سراہا بلکہ کوئی شکایت بھی نہیں کی، کیا وہ تاجر برادری کی نمائندگی نہیں کررہے؟ کیا وہ ملک کے سب سے بڑے بزنس مین نہیں ہیں؟ اگر شکایت ہوتی تو سب سے پہلے انہیں ہوتی۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سرکاری عہدیداران سے کروڑوں کے لین دین کے متعلق پوچھنے کا حق ہے، اگر فالودے والے، ریڑھی والے کے اکاؤنٹ سے ڈھائی ارب،ڈیڑھ ارب کی ٹرانزیکشن ہو تو نیب کو صرف اس لیے خاموش رہنا چاہیے کہ کسی کی پگڑی نہ اچھل جائے یا نیب کےخلاف الزام تراشیاں نہ شروع ہوجائیں۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نے کہا کہ گیلپ سروے کے مطابق 59 فیصد عوام نیب پر اعتماد کرتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ خلیجی ممالک کے اہم رکن نے نیب سے رابطہ قائم کیا اور انہوں نے کہا کہ آپ کی بجلی و پانی کی مشکلات کے حل کے لیے خطیر سرمایہ کاری کریں گے لیکن نیب کے توسط سے کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے انہیں بتایا کہ یہ نیب کا مینڈیٹ نہیں ہے اگر باہر کے لوگ نیب پر اعتماد کرسکتے ہیں، عوام کرسکتے ہیں تو وہ عوامی نمائندے جن سے سوال کیا جائے تو یہ غلط نہیں بلکہ ملک کے مفاد میں ہے۔
کسی دھمکی کی پروا نہیں کروں گا
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ملک کے مفاد میں ہر قدم اٹھایا جائے گا، کسی ڈر کسی خوف کسی دھمکی یا اثر و رسوخ کی نہ پہلے کبھی پروا کی نہ کروں گا۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم کا چیئرمین نیب کی کارکردگی پر اظہارِ اطمینان
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب پر سیاست زدہ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، آج تک کسی قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی کا رکن یا سینیٹر یہ کہہ دے کہ نیب کے کسی رکن نے بشمول جاوید اقبال نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مشرق کے بجائے مغرب جائیں اگر ایک شخص بھی یہ کہہ دیتا ہے تو میں الوداعی خطاب کرکے گھر چلا جاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ نیب پر سیاسی انتقام کا الزام عائد کیا جاتا ہے جس میں کوئی صداقت نہیں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف نے ملک کو گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے اور ہمیں منی لانڈرنگ پر انتباہ جاری کیا ہے ،گلوبل سطح پر پاکستان کا امیج بہتر کرنے کی ضرورت ہے تو نیب ان چند لوگوں کی پروا نہیں کرے گا جو شام میں بیٹھ کر دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نیب کا یہ اقدام تاجر برادری کو ہراساں کرنے اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں اور حکومت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، نیب کی وابستگی حکومت نہیں،ریاست کے ساتھ ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جن کا خیال ہے کہ نیب کو کوئی ڈکٹیٹ کرسکتا ہے اس قسم کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا،نیب صرف وہ کرے گا جو قانون کے مطابق ہے۔
حکومت سے دوستانہ مراسم ہوتے تو بجٹ کی کمی کی شکایت نہ کرتے
چیئرمین نیب نے کہا کہ اگر نیب کے حکومت کے ساتھ اتنے ہی دوستانہ مراسم ہوتے تو ہر چند دن بعد بجٹ کی کمی کی شکایت تو نہ کراتے، اب نیا بجٹ تیار ہورہا ہے اس میں اپنا بجٹ منظور کروانے میں نیب کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف وہ لوگ جو نیب کے ریڈار پر ہیں، ان کے وکلا کی فیسیں کروڑوں میں ہے اور ہمارے نیب پراسیکیوٹرکے لاکھ، دو لاکھ روپے ہیں، آپ ان سے کیسے توقع کریں گے کہ اس میں کوئی کمی نہ ہو۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ منی لانڈرنگ کو چیک کرنا ہے اور وہ سرکاری نمائندے جو اس میں بظاہر ملوث ہیں جن کے خلاف شہادتیں مل رہی ہیں، مزید شہادتیں آرہی انہیں اس خوف سے چھوڑ دوں کہ خطرے کا خیال بڑھ گیا ہے یا شام کو کچھ اصحاب نیب کو مورد الزام ٹھہرائیں گے ، الزام تراشی اپنی جگہ ملکی مفاد اپنی جگہ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گرے لسٹ سے نکلنا ہے، ملک کا امیج بہتر کرنا ہے اگر یہ سب کرنا گناہ ہے تو میں گناہ گار ہوں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ انکوائری کا کوئی لاجیکل اینڈ نہیں، جب ریفرنس فائل ہوجائے تو ہماری طرف سے لاجیکل اینڈ ہے، 1250 ریفرنس ہوں اور 25 جج صاحبان ہوں تو پھر آپ مورد الزام نہیں ٹھہرائیں۔
نیب کے پاس شواہد نہ ہوتے تو کچھ لوگ ملک سے نہ بھاگتے
انہوں نے کہا کہ یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ نیب کے پاس شواہد نہیں، شواہد موجود تھے اس لیے کچھ لوگ بیرون ملک فرار ہوگئے، نیب کےپاس شواہد نہ ہوتے تو کچھ لوگ ملک سے نہ بھاگتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ثبوت ہونے پر گرفتار کرتے ہیں اور 24 گھنٹے پر احتساب عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ کچھ لوگوں سے متعلق ہم نے سفارش کی کہ ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں لیکن وہ ای سی ایل میں نہیں رہنے دیے گئے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ کہا جاتا ہے پبلک کے نمائندوں کے خلاف صحیح انکوائری نہیں ہوتی، وہ گرفتار ہوتے ہیں اگلے دن پارلیمنٹ کا اجلاس بلا لیا جاتا ہے، صبح اسمبلی میں جاتے ہیں رات کو 8 بجے واپس آتے ہیں ،اگر رات میں کوئی سوال کیا جائے تو کہتے ہیں کہ نیند آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہفتوں ایسا ہوتا ہے کہ تفتیش کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ سب ہوتا رہا لیکن ہم نے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔
جمہوریت اپنے اعمال کی وجہ سے خطرے میں آتی ہے
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ جمہوریت اپنےاعمال کی وجہ سے خطرے میں آتی ہے، احتساب کی وجہ سے جمہوریت خطرے میں نہیں آتی۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ تاجر برادری کو کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے، ان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پوری تاجر برادری کے لیے یہ پالیسی بیان دیتا ہوں کہ تاجروں کونیب آفس طلب نہیں کیا جائےگا، انہیں سوالنامہ دیاجائے گا وہ اس کا جواب دے دیں گے اور اگر کیس بنا تو انہیں تکلیف دی جائے گی ورنہ نہیں بلایا جائے گا، اطمینان سے سرگرمیاں جاری رکھیں لیکن وہ قانون اور آئین کے دائرے میں ہوں۔
پیپلزپارٹی کا چیئرمین نیب کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے چیئرمین نیب کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرنے کے لیے وکلا سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔
ترجمان بلاول بھٹو زرداری مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ چیئرمن نیب جاوید اقبال کا انٹرویو غیرذمہ دارانہ اور متعصبانہ ہے، ان کی باتیں ان کے عہدے اور تمام قانونی تقاضوں کے منافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چيئرمن نيب نے پارٹی قیادت کے خلاف بغض ظاہر کر کے غیرجانبداری کھو دی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ چیئرمن نیب کا آصف زرداری کی خرابی صحت کا مزاق اڑانا غیراخلاقی اور غیرانسانی ہے، سپریم کورٹ کے ایک سابق جج سے اس طرح کے ہتک آمیز بیان کی توقع نہیں تھی۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ایک جانبدار اور متعصب شخص سے غیرجانبدارانہ اور منصفانہ احتساب کی توقع نہیں، چیئرمن نیب کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرنے کیلئے وکلا سے مشاورت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ نیب حکومت کا آلہ کار ہے ہمارا دعویٰ چیئرمن نیب نے خود سچ ثابت کر دیا۔
ترجمان بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت کے خلاف متحرک ہوتے ہیں تو نیب ایکشن میں آ جاتا ہے، چیئرمن نیب کچھ بھی کر لیں کٹھ پتلی وزیراعظم اور حکومت کو نہیں بچا سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن رہنمائوں سے رابطوں کے وقت ایسا انٹرویو معنی خیز ہے، پہلے بھی جب جب بلاول بھٹو زرداری نے عوامی سرگرمیاں کیں تو نیب حرکت میں آیا۔