پاکستان

ٹرائل اور ثبوت کے بغیر 10 سال سے زیر حراست شخص کی ضمانت منظور

ملزم کو جون2009میں سیکیورٹی اداروں نے ضلع خیبر سے حراست میں لیا تھا، ان کے اہلخانہ کو2017میں گرفتاری سےآگاہ کیا گیا۔

پشاور: صوبہ خیبرپختونخوا کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ایک ایسے شخص کی ضمانت منظور کی ہے، جو گذشتہ 10 سال سے ریاست کے خلاف جنگ کے الزامات کے تحت ٹرائل اور ثبوتوں کی موجودگی کے بغیر زیر حراست تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج شاہد خان نے باڑا کے رہائشی مبینہ ملزم گل دینار کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔

خیال رہے کہ عدالت ملزم کا ٹرائل بعد میں کرے گی۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے مقدمات سول عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ

ملزم کو 26 جون 2009 کو موجودہ ضلع خیبر (سابقہ خیبر ایجنسی) سے سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لیا تھا، ان کے والد کو 9 سال تک اپنے بیٹے کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور آخر کار 2017 میں انہیں بتایا گیا کہ ان کا بیٹا محسود اسکاؤٹس کی حراست میں ہے۔

اس کے باوجود والد کو ان کے بیٹے سے ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ان کو ستمبر 2018 میں پشاور جیل منتقل کیا گیا، جہاں سے ان کے اہل خانہ کو ان کی تفصیلات حاصل ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کمیشن نے 3 ہزار 492 کیسز نمٹا دیئے، جسٹس (ر)جاوید اقبال

درخواست گزار کے وکیل شبیر حسین کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کو جب انتظامیہ کے حوالے کیا گیا تو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں واضح تحریر تھا کہ انہیں جون 2009 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کو 2009 سے اب تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ان کا نام 'بلیک' لسٹ میں شامل کرنے کے بجائے 'گرے' لسٹ میں شامل کیا گیا اور انہیں مبینہ طور پر دہشت گرد قرار دیا گیا اور ان کے خلاف کسی قسم کے ثبوت بھی موجود نہیں ہیں، اس کے باوجود ان پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 121 اور 121 اے کے تحت الزامات لگائے گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ان کے موکل کے خلاف ثبوت موجود نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے مقدمات کا اندراج کروانا ریاست کی ذمہ داری، عدالت

وکیل کا کہنا تھا کہ یہ غیر آئینی اقدام ہے کہ کسی شخص کو بغیر ٹرائل کے 10 سال حراست میں رکھا جائے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے یہ غیر انسانی رویہ بھی ہے کہ 10 سال تک بغیر کسی الزام کے ایک شخص کو ان کے اہل خانہ سے دور رکھا جائے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ جب انہیں گرفتار کیا گیا ان کے موکل کے 3 کم عمر بچے تھے۔