کراچی کا کون سا ماسٹر پلان؟


کراچی میں سرکاری زمین کے مبینہ غیر قانونی استعمال اور تجاوزات سے متعلقہ معاملات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی بینچ نے سرکاری عہدیداروں کو شہر کے اندر اس کے ’اصل ماسٹر پلان‘ کے مطابق اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ کراچی 1947ء کے بعد سے کئی ترقیاتی پلانز سے فائدہ اٹھا چکا ہے، مگر حکومتِ سندھ نے کسی ایک کے بارے میں بھی باضابطہ طور پر مطلع نہیں کیا۔ اگرچہ تھوڑے بہت کام شہر کے مختلف ترقیاتی پلانز کے دائرے میں آتے ہیں مگر شہری ترقی اور گورننس کے حوالے سے کوئی ایک بھی قانونی طور واجب التعمیل پلاننگ دستاویر موجود ہی نہیں تھا۔
مثلاً، 1947ء میں جب یہ شہر پاکستان کا درالحکومت بنا تو اس کے انتظامی کاموں کو سائنسی خطوط پر استوار کرنے کی خاطر 1951ء میں ’گریٹر کراچی پلان‘ مرتب کیا گیا۔ اس پلان میں گڈاپ سے قریب 20 کلومیٹر دور کیپیٹل کامپلیکس بنانے کی تجویر دی گئی، جو تیز رفتار ریل اور زمینی رابطوں کے ذریعے موجودہ شہر سے جوڑا جانا تھا۔
جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ اسکیم بڑی حد تک غیر مؤثر بن گئی۔ مہاجرین کی آمد کے پیش نظر 1958ء میں گریٹر کراچی ریسیٹلمنٹ پلان مرتب کیا گیا، جس کا مقصد شہر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے وسیع رقبے پر محیط صنعتی اور تجارتی مقامات کے ساتھ ہر پہلو سے مکمل سیٹلائٹ ٹاؤنز میں نئے آنے والوں کو رہائش کی فراہمی تھا۔ لانڈھی کورنگی اور نارتھ کراچی ان دو ابتدائی مقامات میں شامل تھے، مگر رہائشی علاقوں میں رہائشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سست رو صنعتی ترقی، جو کہ قومیانے کے عمل کے بعد اور بھی سست روی کا شکار ہوگئی، سے ہم آہنگ نہ ہوسکی۔
موجودہ حقائق اور متوقع تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شہر کا وژن فراہم کرنا ایک عام منطق ہے۔ 1986-2000 کا پلاننگ دستاویز 6 خاص منظرناموں اور ان کے حوالے سے حکمت عملیوں پر مشتمل تھا: ترقی یافتہ علاقوں کی خالی جگہوں پر تعمیرات اور انہیں آپس میں جوڑنے کا عمل، کم سے متوسط شہری پیداوار کا تصور، (محتاط انداز میں) پیداور نہ ہونے کی توقع اور انفرااسٹریکچر کے معیار کو بہتر بنانے کا عزم، کم آمدن والے افراد کی آبادیوں کی ترقی پر توجہ، بعد از ترقی کے لیے خصوصی طور پر منصوبہ بندی، اور کینٹومنٹ اور رہائشی سوسائٹیوں کو خدمات کی فراہمی۔
کے ایس ڈی پی کے پاس بڑھتی ہوئی گاڑیوں کے پیش نظر ٹرانسپورٹیشن اور نقل و حرکت کے لیے کئی کارآمد آپشنز موجود تھے۔ موجودہ صورتحال شہر کے ایک ایسے تصوراتی وژن کا تقاضا کرتی ہے جس میں معاشرے کے تمام حلقوں کی مشاورت شامل ہو۔ اس وژن کو آہستہ آہستہ اور وقت فوقتاً ترقیاتی اور انتظامی پلانز کی شکل دی جاسکتی ہے تاکہ اسے زماں مکاں کے اعتبار سے پرکھا جائے۔
قانونی تحفظ رکھنے والا پلان مارکیٹ قوتوں، صارفیت اور عالم گیریت کے بڑھتے اثر ورسوخ کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مارکیٹ قوتیں ناگزیر طور پر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے بہترین حالات کی تلاش میں رہیں گی، اور ہر اس سرگرمی میں ہر قسم کے اسٹیک ہولڈر کو کھلم کھلا اور پوشیدہ طور پر بھی اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے حصہ لے گی جس میں پرکشش نفع شامل ہو۔