دنیا

جیسنڈا آرڈرن، فرانسیسی صدر کی آن لائن انتہاپسندی کے خلاف ' کرائسٹ چرچ کال'

یہ صرف قوانین کی حد تک نہیں ہے،اس سے قبل مزید نقصان پہنچے ہمیں اس مسئلے پر قابو پانےکی ضرورت ہے،وزیراعظم نیوزی لینڈ

پیرس: وزیراعظم نیوزی لینڈ جیسنڈا آرڈرن اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے نیوزی لینڈ کی 2 مساجد پر حملے کی لائیو ویڈیو وائرل ہونے پر آن لائن انتہاپسندی کے خلاف ' کرائسٹ چرچ کال' کے نام سے مہم کا آغاز کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں برس مارچ میں نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں دہشت گرد حملوں میں 50 افراد کے جاں بحق ہونے کے کئی ہفتوں بعد مختلف ممالک کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد ٹیکنالوجی کی معروف کمپنیوں نے انٹرنیٹ پر انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنےپر اتفاق کیا۔

سانحہ کرائسٹ چرچ میں حملہ آور نے مساجد میں فائرنگ کی ویڈیو لائیو اسٹریمنگ کی تھی اور اس وجہ سے فیس بک پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ وہ اپنی لائیو اسٹریمنگ سے متعلق قوانین سخت کرے۔

' کرائسٹ چرچ کال' کا آغاز نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اور فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے پیرس میں کیا جس میں دنیا بھر سے سربراہان اور نمائندگان بھی شریک تھے۔

تاہم امریکی حکومت نے کرائسٹ چرچ کال کی حمایت نہیں کی تھی اور پیرس اجلاس میں نمائندگی نہیں کی۔

—فوٹو: اے ایف پی

اجلاس میں اس مہم پر اتفاق کرنے والے افراد نے بیان میں کہا کہ ' ایسے مواد کی آن لائن تشہیر کی وجہ سے متاثرین، اجتماعی سیکیورٹی اور دنیا بھر کے تمام افراد کے انسانی حقوق پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: فیس بک کا لائیو اسٹریمنگ قوانین بدلنے کا اعلان

سماجی روابط کی ویب سائٹ خاص طور پر فیس بک کو کرائسٹ چرچ حملے کے بعد سے حملے کی فوٹیج اپلوڈ ہونے اور اسے ہٹانے کی کوششوں کے باوجود کروڑوں مرتبہ شیئر ہونے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ روز فیس بک نے کہا تھا کہ لائیو اسٹریمنگ پر کچھ پابندیاں نافذ کررہے ہیں۔

ٹوئٹر، وکی پیڈیا، ڈیلی موشن اور مائیکروسافٹ کے ہمراہ گوگل اور اس کے یوٹیوب یونٹ نے بھی اس حوالے سے کیے گئے عہد میں حصہ لیا ہے۔

سماجی روابط کی کمپنیوں نے کہا کہ وہ انتہا پسند مواد کی شناخت اور تیزی سے ہٹانے کے لیے نئے ٹولز تلاش کرنے میں تعاون کریں گی جیسا کہ پر تشدد پوسٹس یا تصاویر کی ڈیٹا بیس شیئر کرنا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ مختلف پلیٹ فارمز پر نہ پھیل سکیں۔

ایمانوئیل میکرون کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ' پہلی مرتبہ حکومتوں، بین الاقوامی تنظیموں، کمپنیوں اور ڈیجیٹل ایجنسیوں نے انٹرنیٹ کو محفوظ بنانے سے متعلق اقدامات اور طویل المدتی تعاون پر اتفاق کیا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک کا نیوزی لینڈ واقعے کی 15 لاکھ ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے کا اعلان

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ' اس سے قبل کہ مزید نقصان پہنچے ہمیں اس مسئلے پر قابو پانےکی ضرورت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ' یہ صرف قوانین کی حد تک نہیں ہے،لیکن کمپنیوں کو مذاکرات پر آمادہ کرنا ہے اور بتانا ہے کہ ان کا کردار بھی ہے'۔

اکثر ممالک نے ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں جن کے تحت ناپسندیدہ مواد ہٹانے میں ناکام کمپنیوں پر صارفین یا حکام کی جانب سے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

—فوٹو: اے ایف پی

اس سوشل میڈیا نیٹ ورک کی پالیسیوں کی لائیو اسٹریمنگ کے دوران سنگین خلاف ورزی کرنے پر صارفین پر مخصوص وقت تک کے لیے لائیو اسٹریمنگ کرنے سے روک دیا جائے گا۔

فیس بک کے نائب صدر گائے روسین نے ایک بیان میں بتایا کہ ' نیوزی لینڈ میں حالیہ ہولناک دہشت گردحملوں کے بعد ہم اپنی سروسز کو نفرت پھیلانے یا نقصان پہنچانے میں استعمال ہونے سے روکنے پر نظرثانی کررہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں دہشت گرد حملے، 50 افراد جاں بحق

تاہم ٹیکنالوجی ویب سائٹ نیکسٹ انپیکٹ کے چیف ایڈیٹر مارک ریس کا کہنا ہے کہ ' آپ مواد کو اپلوڈ ہونے سے روک نہیں سکتے، تمام صارفین کی جانب سے ہر چیز آن لائن شیئر کرنے کی ٹریکنگ کے لیے ذرائع درکار ہوں گے'۔

جیسنڈا آرڈرن نے نیویارک ٹائمز میں ایک آرٹیکل میں کہا تھا کہ سانحہ کرائسٹ چرچ نے انتہا پسندوں کے لیے 'ایک نیا ہولناک ٹرینڈر' ترتیب دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ فیس بک نے حملےکے 24 گھنٹوں کے اندر اندر ویڈیو کی 15 لاکھ کاپی ہٹائی تھیں لیکن وہ خود بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے سوشل میڈیا فیڈز میں وہ ویڈیو غیر ارادتاً ظاہر ہوجاتی ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے سی این این کو بتایا کہ تقریباً 8 ہزار شہریوں نے ویڈیو دیکھنے کے بعد مینٹل ہیلتھ ہاٹ لائن سے مدد طلب کی تھی۔