نقطہ نظر کیا بچپن میں شادی ایک سماجی لعنت نہیں ہے؟ لڑکیوں کے لیے شادی کی کم سے کم عمر مقرر کرنے کا عمل کوئی نئی ’سازش‘ نہیں ہے۔ آئی اے رحمٰن آئی اے رحمن۔ شادی کے لیے لڑکیوں کی عمر کم سے کم کتنی ہونی چاہیے؟ اس نئی بحث سے ہمارے معاشرے کی سماجی سوچ میں موجود زبردست رجعت پسندی کو آشکار کیا ہے، اور اس کے مضمرات حقیقتاً قابلِ تشویش ہیں۔90 برس قبل انڈیا کی سینٹرل اسمبلی میں ایک ہندو رکن اسمبلی نے اپنی کمیونٹی کی لڑکیوں کی شادی کے لیے کم سے کم عمر کی حد مقرر کروانے کے لیے بل پیش کیا، تاکہ بچپن کی شادی جیسی سماجی لعنت کو ختم جاسکے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے زور دیا کہ اس مجوزہ اقدام کے تحفظ میں مسلمان لڑکیوں کو بھی لیا جائے۔ کئی مسلمان اراکین نے ان کی مخالفت کی، لیکن دیگر مذہبی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی رکن نے انہیں اپنا مؤقف سامنے رکھنے کے حق کو چیلنج نہیں کیا۔ حال ہی میں حکمران جماعت کے غیر مسلم رکن اسمبلی رمیش وانکوانی نے لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر کی حد کم سے حد 18 برس تک بڑھانے کا بل پیش کیا۔ ایک مسلم وزیر نے نہ صرف ان کی مخالفت کی بلکہ انہیں حاصل بل پیش کرنے کے حق پر بھی سوال کھڑا کردیا، یوں وزیر نے اپنے عمل سے یہ ظاہر کردیا کہ وانکوانی کو اس کے مذہبی عقیدے کی وجہ سے کسی ایسے مسئلے کو اٹھانے کی اجازت نہیں ہے جس کا اثر مسلمان لڑکیوں پر ہوتا ہو۔ ہماری قانون سازی کی تاریخ میں، نہ آزادی سے قبل نہ آزادی کے بعد، اس قسم کی رجعت پسندانہ سوچ کا ایسا مظہر کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ قائد اعظم نے انڈیا کی سینٹرل اسمبلی میں شادی قوانین پر دو بار اظہار رائے پیش کیا۔ پہلے موقعے پر انہوں نے اس ہندو میرج بل کی حمایت کی جس میں بین الذات شادیوں کی اجازت دی گئی تھی اور انہوں نے یہ واضح کیا کہ ’میں ہندو اقلیت کی آگے بڑھ کر مدد کرنے میں اتنی ہی دلچسپی رکھتا ہوں۔۔۔ جتنی دلچسپی کوئی بھی شخص مسلمان اقلیت کی آگے بڑھ کر مدد کرنے میں رکھتا، اگر وہ (مسلمان اقلیت) تکلیف میں مبتلا ہوتی۔‘ دوسرے موقعے پر انہوں نے ہندو برادری میں بچپن کی شادی کی روک تھام کے لیے پیش کیے جانے والے بل پر مباحثہ کے دوران اپنا مؤفف بیان کیا۔ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929ء، جس کا اطلاق مسلمان لڑکیوں پر بھی ہوتا ہے، کی تیاری میں قائد کی کامیابی کا حوالہ بھی بار بار عوامی مباحثے میں دیا جاتا رہا ہے، مگر اس کی یاد ایک بار پھر یہاں تازہ کرنا سودمند رہے گا۔ علماء کی ایک بڑی تعداد نے قائد کی اس پیش قدمی کی مخالفت کی، ایسے میں مولانا شبلی نعمانی واحد ایسے شخص تھے جو ان کی حمایت میں آگے آگے تھے۔ جب ان سے اسمبلی میں اپنی نشست سے استعفی دینے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے واضح کیا کہ انہیں نشست سے دستبردار کرنے کا حق صرف بمبئی کے مسلمانوں کو حاصل ہے جنہوں نے انہیں منتخب کیا تھا۔ سردا بل (یہ نام بل پیش کرنے والے رکن اسمبلی کے نام پر رکھا گیا تھا) پر مباحثے کے دوران انہوں نے مندرجہ ذیل نکات پیش کیے:بچپن کی شادی ایک سماجی لعنت تھی اور وہ مسلمانوں میں پھیلے اس رواج کےبارے میں جان کر خوفزدہ ہوگئے تھے۔قانون کی پریکٹس کے اپنے 30 سالہ تجربے میں انہوں نے یہ بات جانلی تھی کہ شادی ایک خالص اور سادہ سماجی معاہدہ ہے اور اس کا مذہب سےکوئی لینا دینا نہیں ہے۔ایسا کوئی اسلامی تحریری حوالہ موجود نہیں جس میں مسلمانوں کو 14 برس کیعمر تک پہنچنے سے قبل اپنی بیٹیوں کی شادی کرانا لازمی قرار دیا گیا ہو۔چونکہ بل کی مخالفت کٹر ہندوؤں نے بھی کی تھی، اس لیے اسمبلی میں موجود مختلف ہندو اور مسلمانوں اراکین کی جانب سے بل کی حمایت میں آگے آنے کے عمل کو قائد اعظم نے اتحاد کی علامت کے طور پر خوش آئند قرار دیا جو کہ بدیسی حکومت سے آزادی پانے کے لیے ضروری تھا۔تاہم آج کے پاکستان میں حکام قائد کے نظریات کو زیادہ سے زیادہ دوری اختیار کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ ضیا الحق نے قائد کی قومی عظمت اور مرتبے کو جو ٹھیس پہنچائی اس کا مداوا ضیا کے بعد آنے والی کسی حکومت نے نہیں کیا۔ مگر بچپن کی شادی کی چھوٹ کے معاملے پر قائد کے خیالات کو یاد کرتے ہوئے کسی کو خفا کیے بغیر سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔پوری دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ بچپن کی شادی کس قدر شیطانی عمل ہے۔ پاکستان اس سے بدترین حد تک متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل اور 3 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی کروادی جاتی ہے۔ یہ برائی معاشروں میں جو تباہی پھیلاتی ہے وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دلہن بننے والی چھوٹی بچی اکثر و بیشتر ازدواجی ریپ کا نشانہ بنتی ہے۔ ابھی وہ تولیدی عوامل کو ٹھیک طور پر سمجھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی کہ اسے ان عوامل سے زبردستی گزارا جاتا ہے۔ اس سے پہلے وہ یہ سیکھ اور جان پائے کہ بطور ماں اس پر کون کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، وہ ایک مان بن جاتی ہے۔ بار بار بچے کی پیدائش ماؤں کی شرح اموات میں اضافے اور ایسے بچوں کی پیدائش کا باعث بنتی ہے جو اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ ان کا زندہ بچنا مشکل ہوجاتا ہے، جس کی مثال ہم تھر کی صورتحال سے حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ جہاں ایک طرف بچپن کی شادی خواتین کی زندگیوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے وہیں دوسری طرف نومولود بچوں کی شرح اموات میں اضافے اور ناپختہ بچوں کی پیدائش کا باعث بنتی ہے۔ یہ دونوں ایسے زبردست نقصان کا باعث بنتے ہیں جسے کوئی بھی ملک برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ کئی ممالک خواتین اور بچوں کے معیار زندگی بہتر کرچکے ہیں اور خاندانوں کو لڑکیوں کی شادی کی عمر تک پرورش کرنے کے قابل بنا کر اپنی اقتصادی ترقی شرح میں بہتری لاچکے ہیں۔ اس کی سب سے قریبی مثال بنگلہ دیش ہے۔ ترکی، مصر، بنگلہ دیش، اور متحدہ عرب امارات سمیت متعدد مسلم ممالک نے لڑکیوں کے لیے کم سے کم شادی لائق عمر 18 برس مقرر کی ہوئی ہے۔ پاکستانی علماء ان ممالک میں مذہبی احکامات کی تشتریح کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کچھ عرصہ قبل سندھ نے لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر بڑھا کر 18 برس مقرر کی تھی، تو کیا صوبے پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے؟ آخری بات یہ کہ، لڑکیوں کے لیے شادی کی کم سے کم عمر مقرر کرنے کا عمل کوئی نئی ’سازش‘ نہیں ہے۔ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929ء آزادی کے 72 برسوں تک نافذالعمل رہتا آیا ہے۔ مسلم فیملی لاء آرڈینینس میں لڑکیوں کی شادی لائق عمر کی قانونی شرط 2 دہائیوں تک درج رہی، جس کے بعد جنرل ضیا نے اپنی مرضی سے اس کا خاتمہ کردیا۔موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے اپنے حد سے زیادہ رجعت پسند بازو کی حمایت سے انکار کا فیصلہ روشنی کی ایک کرن سے کم نہیں ہے۔ حکمران جماعت کے پاس اس مسئلے پر کسی اتفاقِ رائے کو نظر انداز کرتے رہنے کا زیادہ وقت نہیں ہے۔ ہر ایک کی خواہش یہی ہوگی کہ وہ اپنے چند گمراہ اراکین کے اذہان کو غلط خیالات سے چھٹکارہ دلانے میں کامیاب ہوں گے۔لیکن اگر وہ اس مسئلے پر یونہی گبھراہٹ کا شکار رہتے ہیں تو یوں اس تاثر کو مزید تقویت پہنچے گی کہ موجودہ حکومت نے جہل پسند عناصر کے لیے راہیں ہموار کرنے میں گزشتہ حکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑنے لگی ہے، جو کہ ملک کی خواتین اور اقلیتی برادریوں کے افراد کے لیے ناقابلِ بیان دشواریوں اور صعوبتوں کا باعث بنے گا اور اس کے علاوہ خلافِ زمانہ کٹر پنے کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کی وجہ بنے گا۔یہ مضمون 16 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ آئی اے رحمٰن لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔