نقطہ نظر

’پاکستان میں بجٹ خسارہ نہیں، اعتماد کا خسارہ ہے’

بدقسمتی سے جو ٹیکس نیٹ میں آگیا اس کو تو پکڑ لیا جاتا ہے مگر جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اس سے کوئی پوچھنے والا تک نہیں‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے گزشتہ 10 ماہ کے حکومتی تجربے اور معاشی بدحالی کے بعد اپنی سیاسی اور معاشی ٹیم پر عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی ٹیم بھی بدل دی ہے۔

اگرچہ کچھ تبدیلیوں پر سیاسی اور کاروباری حلقے شکوک و شبہات اور ناکامی کا اظہار کررہے ہیں، مگر ایک ایسی تقرری ہے جس پر اپوزیشن اور معاشی تجزیہ کاروں کو بہت زیادہ اعتراض نہیں ہے، یعنی چیئرمین فیڈل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے عہدے پر شبر زیدی کی تقرری۔

شبر زیدی سے میری پہلی ملاقات سال 2006ء میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاونٹنٹ (آئی کیپ) کے صدر منتخب ہوئے تھے، اور اس وقت مجھے کئی مرتبہ ان کو سننے کا موقع ملا۔ شبر زیدی کھل کر بات کرنے کے قائل ہیں۔ اسی لیے جب ان کی تقرری کی خبر آئی تو انہیں فون کیا تاکہ یہ جان سکیں کہ اتنے مشکل وقت میں شبر زیدی نے ایف بی آر کی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

شبر زیدی کے خیالات اور ابتدائی اقدامات

شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو صرف ایک بحران کا سامنا ہے اور وہ ہے اعتماد کے بحران کا۔ جس کو ہم بجٹ خسارہ سمجھتے ہیں وہ دراصل اعتماد کا خسارہ ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ کچھ اور کرسکیں یا نہیں، مگر ایک کام ضرور کریں یعنی ٹیکس دہندگان اور حکومت کے درمیان موجود عدم اعتماد کی فضا کا خاتمہ، کیونکہ آج دونوں کا ایک دوسرے پر اعتماد ہی نہیں ہے۔ کاروباری لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں، مگر اعتماد کی فضا میں کمی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پارہا ہے۔‘

شاید یہی وجہ ہے کہ شبر زیدی نے چارج سنبھالنے کے بعد جو ابتدائی قدم اٹھائے ہیں وہ اسی عدم اعتماد کو ختم کرنے کی جانب جاتے ہیں۔ انکم ٹیکس کمشنرز کے پاس موجود بینک اکاونٹس کو منجمد کرنے اور اس میں سے ٹیکس کی وصولی کرنے کا اختیار واپس لینا اہم سمجھا جارہا ہے، یوں اب اگر کسی بھی کاروبار کا ذاتی بینک اکاونٹ منجمد کرنا ہوگا یا اس میں سے ٹیکس کی وصولی کرنا ہوگی تو اس حوالے سے ٹیکس دہندہ کو کم از کم 24 گھنٹے پہلے آگاہ کیا جائے گا اور چیئرمین ایف بی آر کی اجازت کے بغیر ایسا بالکل بھی نہیں ہوسکے گا۔

پھر دوسرا اہم اقدام یہ ہے کہ ایف بی آر حکام کسی بھی ٹیکس دہندہ کو Active Tax Payer List سے خارج نہیں کریں گے اور چیئرمین ایف بی آر کی اجازت کے بغیر کسی بھی ٹیکس دہندہ کے گھر پر ایف بی آر کی ٹیم چھاپہ نہیں مار سکے گی۔ یاد رہے کہ اس لسٹ میں شامل افراد کو ریاست کی طرف سے بہت سارے شعبوں میں آسانی مل جاتی ہے، جیسے کسی بھی بینک ٹرانزیکشن، گاڑی کی خریداری یا دیگر معاملات میں۔ لیکن ایف بی آر کسی بھی ذاتی مسئلے یا بلیک میلنگ کی آڑ میں ٹیکس دینے والوں کے نام اس فہرست سے نکال دیتی تھی، جس سے مسائل بڑھ جایا کرتے تھے۔

جب ہم نے ان سے پوچھا کہ پاکستان میں ٹیکس کا نظام بہتر کیوں نہیں ہورہا تو شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ٹیکس نظام میں اس وقت تک اصلاحات ممکن نہیں ہیں جب تک ٹیکس اتھارٹی کو اسٹیٹ بینک، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان اور مسابقتی کمیشن کی طرح خودمختار نہیں بنایا جائے گا۔ اسی طرح اس کے پاس اتنے اختیارات ہونے چاہیے کہ سول بیوروکریسی سے افسران لینے کے بجائے ٹیکس اتھارٹی اپنا ہیومن ریسورس خود بھرتی کرسکے۔ ساتھ ساتھ ٹیکس اور ریونیو کے لیے پاکستان سروسز میں ایک خصوصی کیڈر قائم کیا جانا چاہیئے۔‘

شبر زیدی کے خیال میں ٹیکس کی وصولی کے نظام میں سب سے اہم تبدیلی یہ کرنا ہوگی کہ ٹیکس دینے والے اور ٹیکس افسران کے درمیان براہِ راست تعلق کو ختم کردیا جائے اور اس کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو مکمل طور پر آٹومیشن پر جانا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک مربوط ڈیٹا بیس قائم کرنا ہوگا جس سے ایسے افراد جو ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں اور معاشی لین دین کررہے ہیں ان کا پورا ریکارڈ مل سکے۔ اس وقت جو ڈیٹا بیس موجود ہے وہ ناصرف نامکمل ہے بلکہ اس میں کوئی ربط بھی نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت ہو یہ رہا ہے کہ جو ٹیکس دیتا ہے، اس کو ہی ہر مرتبہ پھنسا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی کم ٹیکس دے رہا ہے تو کم از کم دے تو رہا ہے۔ اصل مجرم تو وہ ہے جو ٹیکس نیٹ میں ہے ہی نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے حالات یہ ہوچکے ہیں کہ جو ٹیکس نیٹ میں آگیا اس کو پکڑ لو مگر جو ٹیکس نیٹ سے باہر کھڑا ہے، وہ مسلسل مزے کررہا ہے اور اس سے کوئی پوچھنے والا تک نہیں۔‘

پاکستان میں ٹیکس وصولی کی صورتحال

شبر زیدی کو جو اس وقت ذمہ داری دی گئی ہے وہ مشکل ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے، کیونکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ تقریباً 350 ارب روپے سے زائد ٹیکسوں میں کمی کا سامنا ہورہا ہے۔

یہ کمی پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے کسی حد تک شرمندگی کا سبب بھی ہے کیونکہ عمران خان نے بطور اپوزیشن لیڈر یہ دعوٰی کیا تھا کہ بدعنوانی کی وجہ سے ٹیکس وصولی میں کمی ہوتی ہے اور جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو چند ماہ کے اندر اندر ٹیکس وصولی 8 ہزار ارب روپے تک بڑھا دیں گے۔

ایک گفتگو میں شبر زیدی کا ٹیکس وصولی سے متعلق کہنا تھا کہ پاکستان کی مجموعی ٹیکس وصولی 4 ہزار ارب روپے ہے اور پاکستان کی دستاویزی معیشت کا حجم ساڑھے 3 ہزار ارب ہے جبکہ غیر دستاویزی معیشت کا حجم بھی تقریباً 3 ہزار ارب ہے، اور یہ وہ میدان ہے جہاں پر ٹیکس کی وصولی یا ٹیکس لاگو نہیں کیا جارہا ہے۔

پاکستان ایک بڑی معیشت ہے جس میں آمدنی کے باوجود ٹیکس وصولی نہیں ہوتی۔ معیشت میں بینکاری یا دیگر لین دین کو ٹیکس نظام سے مربوط نہیں کیا گیا ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کمی کو کسی صورت پورا کرلیا جائے، لیکن ایسا کرنے کے لیے ایف بی آر کے ساتھ ساتھ دیگر حکومتی ادارے نادرا، اسٹیٹ بینک، مالیاتی اداروں اور صوبائی حکومتوں کا تعاون درکار ہوگا۔

شبر زیدی کو کیا مشکلات ہوسکتی ہیں؟

شبر زیدی واحد فرد نہیں جنہیں نجی شعبے سے لاکر ایف بی آر کا چیئرمین بنایا گیا ہو، بلکہ اس سے قبل نواز شریف نے معین الدین کو یہ ذمہ داری دی تھی جو ایک بینکار تھے۔ معین الدین نے کسٹم چوری کی گاڑیوں کی تلاش میں پارلیمنٹ میں کھڑی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی جانچ پڑتال شروع کی تو اراکین اسمبلی ان کے خلاف کھڑے ہوگئے اور معین الدین کو عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ اس جانچ پڑتال میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پارلیمنٹ کی پارکنگ میں کھڑی 90 فیصد گاڑیاں نان کسٹم پیڈ تھیں۔

اب شبر زیدی کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جارہا ہے کہ وہ بھی شاید معین الدین کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے مگر دوسرے انداز سے۔

مستقبل کے ارادے

شبر زیدی کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکس کی وصولی کے نظام کو شہری علاقوں اور معیشت سے نکال کر دیہات کی معیشت کی طرف لے کر جائیں گے۔ کسانوں کی پیداوار جو فارم پر فروخت ہوتی ہے شہر پہنچنے تک اس کی قیمت میں 4 سے 5 گنا کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ دیہات میں موجود آڑھتی، اسٹوریج، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر ایگرو بیس خدمات سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا ہوگا۔ اگر آپ براہِ راست زراعت کو ٹیکس نہ بھی کریں مگر زراعت کے تجارتی لین دین اور اس پر ہونے والے منافع پر تو ٹیکس عائد کیا جانا چاہیئے۔

شبر زیدی کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ٹیکس چوری سے کمایا ہوا پیسہ اس وقت پراپرٹی میں لگا ہوا ہے۔ پراپرٹی ٹیکس نظام کا حصہ نہیں ہے اور بدقسمتی سے نادہندگان کو یہ سہولت قانونی طور پر دی گئی ہے۔

شبر زیدی ویلیو ایڈڈ ٹیکس یا ویٹ کے حمایتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ویٹ کا نظام انکم ٹیکس نظام کے ساتھ منسلک کرنا ہوگا۔ ویٹ کے لیے ایک پورا فریم ورک ہونا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ ویٹ لگادیں مگر اس کے ساتھ جعلی انوائسز کا سلسلہ شروع ہوجائے۔

ویٹ کیا ہے؟: ویٹ سیلز ٹیکس سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی چیز کے ہر ایک مرحلے پر لگایا جاتا ہے۔ جیسے کچا کپڑے پر الگ ویٹ لگتا ہے، پھر جب وہی کپڑا سل جاتا ہے تو الگ ویٹ لگتا ہے، پھر اسی کپڑے کو جب پیک کرکے مارکیٹ میں فروخت کیا گیا تو پھر اس پر ویٹ لگا اور پھر جب مارکیٹ سے ایک صارف نے خریدا تو اس پر پھر ویٹ لگا، یوں ہر ایک مرحلے پر ٹیکس لگ کر چیز مہنگی ہوجاتی ہے، جو صارف کے لیے نقصان کا سودا ہے، مگر حکومت اس سے اچھا ٹیکس کما لیتی ہے۔

ساتھ ساتھ وہ قومی مالیاتی کمیشن میں ٹیکس کی وصولی پر وفاق کے کمیشن کو ایک فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، کیونکہ اس سے بھی وفاق کو 500 ارب روپے اضافی مل سکتے ہیں۔

شبر زیدی کی تعیناتی، تنازع اور مفادات کا ٹکراو

شبر زیدی کا پیشہ ورانہ سفر 40 سال پر محیط ہے۔ اس پورے سفر میں وہ اپنے کلائنٹس کو اس بات کا مشورہ دیتے رہے ہیں کہ کس طرح اکاونٹس کو مینٹین کیا جائے کہ کم سے کم ٹیکس دینا پڑے۔ اس کے علاوہ وہ ایف بی آر کے سامنے اپنے کلائنٹس کے وکیل کے طور پر بھی پیش ہوتے رہے ہیں۔ شبر زیدی کی تقرری پر ماہرین کا خیال ہے کہ جو شخص اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں ٹیکس کی بچت کی سوچ رکھتا ہو وہ کس طرح سے ٹیکس میں اضافے کے اقدامات کرسکتا ہے؟

لیکن جہاں تک میں شبر زیدی سے متعلق معلومات رکھتا ہوں وہ ہر حکومت کے ساتھ بجٹ کی تیاری، ڈرافٹنگ اور ہر مرحلے میں مفت مشاورت فراہم کرتے رہے ہیں۔ حکومتوں نے بجٹ سازی میں شبر زیدی کی خدمات کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے اور ان کی مشاورت سے اکثر پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں۔

عہدہ حاصل کرتے ہی پریشانی کا سامنا

شبر زیدی کو جن ٹیکس افسران سے کام لینا ہے انہوں نے ہی شبر کے خلاف محاذ کھڑا کردیا ہے۔ لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا، بلکہ 2013ء میں سابق چیئرمین نادرا ارشد علی حکیم کی بطور چیئرمین ایف بی آر تعیناتی کے خلاف یہی افسران اسلام آباد ہائیکورٹ سے مقدمہ جیت چکے ہیں اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر اعلان کیا ہے کہ شبر زیدی کی تعیناتی کو بھی چیلنج کیا جائے گا۔

شبر زیدی کی بطور چیئرمین تعیناتی میں بھی یہی مقدمہ آڑے آیا اور حکومت نے ہائیکورٹ کے وضع کردہ طریقہ کار کو اپنانے سے بچنے کے لیے شبر زیدی کو مراعات سے محروم کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اب اعزازی چیئرمین ایف بی آر کے طور پر کام کررہے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ہائیکورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے، یہ دیکھنا بہت اہم ہے۔

تحریک انصاف کے ناقد شبر زیدی

شبر زیدی کے ماضی میں دیے گئے انٹرویو پر نظر ڈالی جائے تو وہ پاکستان تحریک انصاف پر تنقید اور مسلم لیگ (ن) کی ٹیکس پالیسیوں کی حمایت کرتے پائے جاتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے کا تجربہ بہت تلخ ہے۔ حکومتی نظام میں گورننس کے بہت سے مسائل ہیں اور وہ اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھنا چاہتے ہیں، جس کا مرکزی خیال ہوگا کہ پاکستان میں کیوں لوگ سرکاری نوکری کرنا نہیں چاہتے ہیں۔

شبر زیدی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2013ء سے 2018ء کے دوران کاروباری پالیسی پر عمل کیا ہے اور ٹیکس کی وصولی بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ مگر ہاں بہت سی چیزیں اب بھی ایسی تھیں جو ہوجانی چاہیے تھیں مگر نہیں کرسکے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کی تبدیلی کو مصنوعی قرار دیتے ہوئے شبر زیدی کا موقف رہا ہے کہ جو اصل کام پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں کرنا چاہیئے تھا وہ نہیں کیا جاسکا۔ لینڈ ریکارڈ کو پی ٹی آئی کمپیوٹرائزڈ کرنے کی بات کرتی ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوا۔

پانامہ کیس جس پر نواز شریف کے خلاف عمران خان عدالت تک چلے گئے اور ان کو سزا بھی ہوگئی، اس کیس میں بھی شبر زیدی کے خیالات عمران خان سے مختلف ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے اور اس حوالے سے ان کی فرم نے نواز شریف کی جانب سے لی جانے والی قانونی مشاورت میں یہ کہا تھا کہ مریم نواز شریف ایک الگ اور آزاد شخصیت ہیں اور وہ نواز شریف کے زیرِ کفالت نہیں ہیں۔ اس رائے کو مسلم لیگ (ن) نے اپنے حق اور موقف کی دلیل کے طور پر بھی پیش کیا تھا۔

آخری بات

شبر زیدی کو بطورِ اعزازی اور بلانتخواہ چیئرمین ایف بی آر تعینات تو کردیا گیا ہے مگر مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والی ٹیکس مشینری اس فیصلے سے ناخوش نظر آتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شبر زیدی نشست کی دوسری طرف پہنچنے کے بعد اس پوری صورتحال کا سامنا کس طرح کرتے ہیں۔

ساتھ جو بڑی ذمہ داری ان کو دی گئی ہے، وہ اس پر پورا اترتے ہیں یا نہیں، اور اس کے لیے یقینی طور پر کچھ وقت انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن اگر وہ کامیاب ہوگئے تو یہ صرف ان کی کامیابی نہیں ہوگی، بلکہ پاکستان کی کامیابی تصور ہوگی، کیونکہ ٹیکس کا حصول وہ مشکل اور ضروری ترین ٹاسک بن چکا ہے، جس کے بغیر ترقی کے تمام راستے بند نظر آتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔