پاک-بھارت کشیدگی: فضائی حدود کی جزوی بندش میں 30 مئی تک توسیع
لاہور: پاکستان نے بھارت کے فضائی حدود استعمال کرنے پر عائد کی گئی جزوی پابندی میں 30 مئی تک توسیع کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کی جانب سے فضائی حدود کی بندش کے معاملے پر دو طرفہ سطح پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
اس جزوی پابندی کے باعث بھارت کی فضائی حدود استعمال کرنے والی غیر ملکی پروازوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
خیال رہے کہ 26 فروری کو بھارتی دراندازی اور بین الاقوامی حدود کی خلاف ورزی کے باعث پاکستان نے بھارت کی فضائی حدود مکمل طور پر بند کردی تھی۔
مزید پڑھیں: پاک-بھارت فضائی حدود کی بندش سے ایشیا بھر کی پروازیں متاثر
بعدازاں مارچ میں پاکستان نے فضائی حدود بحال کی تھی تاہم بھارتی پروازوں کو تاحال پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ گزشتہ روز پاکستان نے بھارتی پروازوں کے لیے فضائی حدود کی بندش ختم کرنے کے معاملے پر ازسرنو جائزہ لیا اور اس میں 30 مئی تک توسیع کرنے کا فیصلہ کیا۔
سول ایوی ایشن نے مذکورہ فیصلہ کرنے کے بعد پائلٹس کو 30 مئی تک پروازوں کے روٹ سے متعلق نوٹس بھی جاری کیا۔
عہدیدار نے بتایا کہ حکومت 30 مئی کو فضائی حدود کی بندش سے متعلق فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے گی۔
واضح رہے کہ بھارت نے بھی پاکستان کے لیے فضائی حدود پر پابندی عائد کی تھی، عہدیدار نے بتایا کہ 'ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان یا بھارت کی جانب سے فضائی حدود کی بندش ختم کرنے پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی، یہ حیران کن ہے کہ اس معاملے پر کسی بیک ڈور ڈپلومیسی کا استعمال بھی نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی قومی ایئرلائنز اور دیگر غیر ملکی ایئرلائنز کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ فضائی حدود کی بندش دو طرفہ مسئلے کے بجائے ایک بین الاقوامی مسئلہ ہونا چاہیے۔
تاہم پاکستان کی جانب سے فضائی حدود کی بندش سمیت دیگر معاملات میں پیش رفت نہ کرنے کا الزام بھارت پر عائد کیا جاتا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ 'ہم جنگ کے راستے پر نہیں چلنا چاہتے، ہم نے بھارت سے دہشت گردی، جموں و کشمیر سمیت تمام معاملات پر بات چیت کی پیش کش کی کیونکہ ہم امن چاہتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بجائے بھارت کشمیر میں تجارت کو روک کر مزید کشیدگی ظاہر کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک-بھارت کشیدگی، کمرشل فلائٹس کیلئے پاکستان کی فضائی حدود بند
پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے فضائی حدود کی بندش ہٹانے سے متعلق ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ 'ہم کشیدگی میں کمی چاہتے ہیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو بھارت پر فضائی حدود کی بندش ایک دن کے لیے بھی نہیں ہٹائیں گے لیکن اس مقصد کے لیے بھارت کو ہم سے بات چیت کرنی ہوگی'۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت کو سمجھداری سے کام لینا چاہیے اور یہ لازمی سمجھنا چاہیے کہ لڑائی سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
بیک چینل ڈور سے متعلق سوال پر ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ 'جہاں تک مجھے علم ہے اس وقت دونوں ممالک کے درمیان کوئی بیک ڈور ڈپلومیسی کام نہیں کررہی'۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بیک ڈور ڈپلومیسی استعمال ہوئی تھی لیکن فرنٹ چینل سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی، اس لیے کسی بھی معاملے پر فرنٹ اور بیک چینل ڈپلومیسی کے درمیان تعاون نہ ہونا ممکن نہیں ہے'۔
26 فروری سے پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے کی وجہ سے قومی ایئرلائن کی بنکاک، کوالالمپور اور نئی دہلی کی پروازیں معطل ہیں جس سے پی آئی اے کو روانہ کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ ایک ہفتے میں پی آئی اے کی 4 پروازیں کوالالمپور، 2 بنکاک اور 2 نئی دہلی جاتی تھیں۔
اسی طرح ان روٹس پر جانے والی غیر ملکی پروازوں کو بھی اپنے آپریشن معطل کرنے پڑے جبکہ پاکستانی مسافر خلیجی ممالک جانے والی پروازوں کے ذریعے کوالالمپور اور بنکاک کا سفر کررہے ہیں۔
دوسری جانب بھارتی ایوی ایشن انڈسٹری کو پاکستان سے کئی گنا زیادہ نقصان کا سامنا ہے، بھارتی قومی اور نجی ایئرلائنز کے علاوہ غیر ملکی ایئرلائنز کو بھی پاکستانی فضائی حدود پر پابندی کی وجہ سے دیگر منازل تک پہنچنے کے لیے طویل روٹ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔
وسطی اور مغربی ایشیا سے آنے والی پروازیں اب زیادہ طویل روٹ اختیار کرتی ہیں، مثلاً دہلی-آستانہ فلائٹ کو اضافی 3 گھنٹے کا سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ دہلی سے ماسکو جانے والی پرواز کو بھی 2 گھنٹے اضافی لگتے ہیں۔
اسی طرح دہلی سے کابل اور دہلی سے تہران جانے والی پرواز کا دوانیہ دگنا ہوچکا ہے، ہزاروں مسافروں کو طویل پروازوں کا سامنا ہے اور انہیں بھاری کرایہ بھی ادا کرنا پڑرہا ہے۔
انڈین ڈیلی اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایئر انڈیا کو گزشتہ ماہ کے اختتام پر 3 سو کروڑ بھارتی روپے کا نقصان ہوا تھا، ایئرلائن نے نقصان کی تلافی کے لیے وزارت برائے انڈین ایوی ایشن انڈسٹری سے رابطہ کیا ہے۔