نقطہ نظر

’شکر گڑھ جھیل‘ پر پہنچنے والے پہلے غیر مقامی

’یہ چھوٹے پھیپھڑوں والے میدانی اس جھیل کی خاطر بلند و بالا اترائی چڑھائی کا یہ کٹھن سفر طے کر بھی پائیں گے یا نہیں؟‘

شکر گڑھ جھیل پر پہنچنے والے پہلے غیر مقامی

نصر احمد بھٹی

چند سال قبل گگئی کے جنگل سے واپسی پر تاؤ بٹ کے رہائشی بشیر علی سے جب ددگئی نالے میں ضم ہونے والے نالے کے نکتہ آغاز کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس کا مسکن ایک خوبصورت گاؤں ہے جس کے قریب ایک جھیل بھی واقع ہے۔ گزشتہ دو برس کے دوران جب بھی ارد گرد کے علاقوں میں آنا ہوا تو صاف و شفاف ٹھنڈے پانی کی گواہیاں سنتے لیکن ہر بار بدلتے موسم کی سختیوں نے ہمیں جھیل کی طرف پیش قدمی سے روکے رکھا لیکن اب کی بار مصمم ارادے اور قطعی فیصلہ کے ساتھ چند آوارہ گرد کوہ نورد اپنے وجود کے کاندھوں پر رک سیک کا بوجھ اٹھائے جھیل دیکھنے تاؤبٹ کی طرف چل پڑے۔

وادئ نیلم کے آخری قصبے تاؤبٹ سے شروع ہونے والا یہ سفر ایک ایسی شرمیلی جھیل کی طرف تھا جس کا دیدار صرف مقامی لوگوں میں سے بھی چند ہی کے نصیب میں آتا رہا ہے۔ ان میں سے بھی اکثریت ان بکر والوں کی ہے جو شکر گڑھ گاؤں میں موسم گرما میں اپنے مال مویشی کو چرانے کی غرض سے اس علاقے میں ڈیرہ جمانے آتے ہیں۔

ماہِ جولائی کے آخری دن تھے۔ گگئی کے جنگل میں سورج کی کرنیں ہر سو پھیلی ہوئی تھیں۔ گزشتہ 2 دن سے ہونے والی مسلسل بارش کے بعد موسم کے رنگ خاصے سحر انگیز تھے۔ سست رو ہوا بلند پہاڑوں کی سرسبز ڈھلوانوں پر دیو قامت درختوں کو رقص کرنے پر مجبور کررہی تھی۔ بادلوں کی ٹکڑیاں آوارگی کے عالم میں ہوا میں تیرتی تھیں اور ہمیں بھی آوارگی پر اُکسا رہی تھیں۔

گگئی صحیح معنوں میں ایک ’جنگل‘ معلوم ہوتا ہے۔ زندگی کی چہل پہل سے دور تنہائیوں کے پرسکون گوشے، گہرا سکوت، خوبصورت رنگوں سے مزین یہ خاموش مقام ،فطرت کو محسوس کرنے والوں کے لیے قدرت کا بیش قیمتی تحفہ ہے۔ جنگل کے درمیان سے گزرتی ندی، اطراف میں گھنے درخت، خودرو جھاڑیوں اور گھاس میں پوشیدہ زمین اور سب سے آخر میں بلند پہاڑ، کوہِ نوردی کے لیے در بدر ہونے والے اس گروپ کو قدرت سے اور کیا چاہیے تھا؟

’چھتری ناڑ‘ کے ساتھ ساتھ شروع ہونے والی یہ ہائیکنگ جلد ہی ٹریکنگ میں بدل گئی۔ پہاڑوں کی اونچی نیچی ڈھلوانوں پر چڑھتے اترتے ہم جلد ہی گگئی کے جنگل سے آگے نکل گئے۔ قریباً 18 کلومیٹر سے زائد چلنے اور ایک ہزار فٹ کی عمودی اور سخت چڑھائی چڑھنے کے بعد جلد ہی شام کے سائے اُترنے لگے۔ ہم کسی مناسب مقام کی تلاش میں تھے جہاں خیمے لگا کر رات قیام کرسکیں۔ سفر کی تھکان کی وجہ سے ہم سب کے جسمانی کل پرزے آرام کے طلبگار تھے۔

سورج جیسے ہی بلند پہاڑوں کی اوٹ میں روپوش ہوا وادی یک دم ہی اندھیرے میں ڈوب گئی۔ جلد ہی ٹارچوں کی روشنی میں ہم چلنے لگے کیونکہ ابھی بھی ہم اپنے مقررہ مسکن سے کچھ دوری پر تھے۔ گھنی جھاڑیوں میں کانٹوں کے وار سہتے، چٹانوں پر ٹھوکریں کھاتے بالآخر مقررہ مقام پر ہمیں کچھ ہموار اور صاف جگہ نظر آئی جہاں خیمے لگائے جاسکتے تھے، اور ہم اسی کو غنیمت جان کر رک سیک کے بوجھ سے آزاد ہوگئے۔ چند دوستوں نے خیموں کی تنصیب اور طعامِ شب تیار کرنے کی ذمہ داری نبھائی اور خوب نبھائی۔ ہمارے ناتواں اجسام میں پھر سے توانائی لوٹ آئی۔ ندی کے کنارے پر خاموش اور گھنے جنگل میں رات کا قیام ہماری زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش وقت ہے۔

اگلے روز علی الصبح ہی ہم نے سفر کا آغاز کیا۔ راستہ دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا تھا لیکن ساتھ ہی خاردار جھاڑیوں کی جگہ اب گُل و گلزار نے لے لی تھی۔ اطراف کے بلند پہاڑوں کی سیدھی ڈھلوانوں پر تاحد نظر پھول ہی پھول تھے۔

راستے کی دشواریوں کے باعث ہم حال سے بے حال ہوئے جارہے تھے۔ ہماری آج کی منزل شکر گڑھ گاؤں یعنی جھیل کا بیس کیمپ تھی۔ بقول بشیرعلی صرف 10 کلومیٹر کا فاصلہ تھا لیکن یہ فاصلہ تھا کہ سمٹتنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ سہہ پہر کے قریب ایک پہاڑی سے چند خیمے نظرآئے جو زیادہ دور نہیں تھے۔ انہیں دیکھ کر خاصا حوصلہ بڑھا اور اسی حوصلے کے سہارے ہم ندی کو ایک گلیشیر کے ذریعے عبور کرکے گرتے پڑتے شکر گڑھ گاؤں پہنچ گئے۔

شکر گڑھ نامی چند بکروال گھرانوں پر مشتمل یہ گاؤں تاؤبٹ سے اندازاً 28 کلومیٹر کے فاصلے پر آزاد کشمیر کی وادئ نیلم اور گلگت بلتستان کے ضلع استور کی حد فاصل پر واقع ہے۔ وادی کو ہر طرف سے بلند پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔

قصہ مختصر کہ وادی کا حسن سحر خیز تھا۔ گھرانے خیموں میں آباد ہیں۔ معاشی طور پر شاید یہ لوگ غریب ہوں لیکن مہمان نوازی اور خوش اخلاقی کی دولت سے مالا مال ہیں۔ انہوں نے جس وقت محبت وپیار اور خلوص سے ہمیں خوش آمدید کہا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے برسوں کے بچھڑے مل رہے ہوں۔ ایک بزرگ بکروال کے بقول ہم سے قبل ایک ریٹائرڈ فوجی افسر یہاں خچروں پر سوار ہوکر رٹو کے مقام سے استور داخل ہوئے تھے، بصورت دیگر کوئی بھی اس علاقہ تک نہیں آتا۔ ایسے میں ہمارا آنا ان کے لیے باعثِ افتخار و مسرت تھا۔

شام کا اندھیرا پھیلا تو ہم نے خیمے لگانے کے لیے جگہ کا انتخاب کیا۔ ابھی خیمے لگانے کے لیے اٹھے ہی تھے کہ صابر بکروال نے روک دیا اور رات قیام کے لیے اپنا خیمہ پیش کردیا۔ پہلے ہی ان کے زیرِ احسان تھے سو معذرت کر لی۔ مگر ان کے مسلسل اصرار کے سامنے ہماری ایک نہ چلی اور ہتھیار ڈالنے پڑے۔ خیمہ کے ایک کونے میں بکروال آرٹ سے ڈھکا ہوا سامان اور دوسرے کونے میں آگ کا جلتا چولہا، شکر گڑھ کی مزرع گاہ پر چمکتی چاندنی، پانی کی چھنکار سناتا چشمہ اور صاف آسمان جس کے دامن پر ان گنت چمکتے ستارے تھے۔ ٹھنڈ سے بچاؤ کے لیے مقامی طور پر تیارکردہ لوئی سے آراستہ بستر تیار کردیے گئے۔ ڈنر کے بعد صبح جھیل پر پہنچنے کے لیے پروگرام طے ہوا۔ ایک دوست جو دشوار سفر کی وجہ سے بیمار ہوگیا تھا اسے سامان سمیت بیس کیمپ ہی چھوڑنے کا فیصلہ ہوا۔

علی الصبح خیمے سے باہرنکلے تو وادی کا فطری حسن چہارسو پھیلا تھا۔ گہرا نیلا آسمان تھا، آوارہ بادل تھے، سرسبز کوہساروں پر کہیں کہیں برف نظر آ رہی تھی اور بپھرتی ندی کا شور سنائی دے رہا تھا، دور وادی میں ان سب خوبصورتیوں میں گھرے بکر والوں کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر صحت مند مگر سادہ زندگی کے رموز سمجھ آنے لگے۔

ناشتے کے بعد صابر بکروال کی راہنمائی میں ہم 8 ہائیکرز اس گمنام جھیل کو نامدار کرنے نکل پڑے۔ ضروری سامان ساتھ لیا۔ بشیر علی گزشتہ روز ہمیں بیس کیمپ پہنچا کر واپس چلے گئے تھے، چونکہ وہ ایک استاد ہیں اس لیے انہیں فریضے کی ادائیگی کے لیے اسکول جانا تھا۔ ہم گاؤں سے نکلے تو چڑھائی کا سفرشروع ہوگیا۔ پتھروں سے ڈھکا راستہ دشوار سے دشوار تر ہونے لگا۔ سامنے ایک ڈھلوان آئی۔ اسے سر کیا تو مزید 2 ٹریکرز راستے کی سختی برداشت نہ کرسکے اور واپس بیس کیمپ روانہ ہوگئے۔

ایک مناسب وقفے کے بعد ہم ایک بار پھراٹھ کھڑے ہوئے۔ اس مقام سے آسمان کی طرف اٹھتی سیدھی عمودی چڑھائی کا آغاز ہوا۔ یہ چڑھائی کسی کوہ پیمائی سے کم نہ تھی۔ مرحلہ مشکل اور کٹھن تھا مگر کوہ نورد واپسی کا خیال بھی دل میں کہاں لاتے ہیں۔ ہم پہاڑوں کی سلطنت میں تھے اور اس سلطنت میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو قدرت کے سامنے سر جھکا لیتا ہے، اپنی انا کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ بقول محترم تارڑ صاحب ’پہاڑوں کے اندر جاتے ہی انسانی انا سب سے پہلے دم توڑتی ہے اور انسان قدرت کے آگے اپاہج ہوجاتا ہے۔‘

مقامی درخت برج پر Tree Lineختم ہوتے ہی آکسیجن کی مقدار بھی کم ہونے لگی کوئی شک نہیں کہ 14000فٹ کی بلندی کوئی معمولی بلندی نہیں۔

فاصلہ تو جیسے کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔ سورج کی تیز کرنیں سیدھی ہم پر وار کر رہی تھیں۔ جبکہ ہماری سانسیں دھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔ ہمت ٹوٹنے کو تھی کہ ہماری حالت زار دیکھ کر پہاڑ کا دل کوہ نوردوں کی محبت سے پگھل گیا اور ہم چوٹی پر پہنچ گئے۔

ہم اس وقت بلند پہاڑوں کے حصار میں تھے لیکن جھیل کہاں تھی؟وہ جس کے لیے ہم محو سفر تھے، سخت مشقت کی تھی، خود کو اذیت میں ڈالا تھا۔ وہ کہاں تھی؟ وہ اب بھی دور تھی۔ جھیل ہم سے 3 اور صبر آزما امتحان مانگتی تھی۔ پہلا، اس عمودی راستے سے نیچے اترنے کا، جو ویسی ہی چٹانوں اور پتھروں سے اٹا پڑا تھا جسے ابھی ہم نے سر کیا تھا۔ یہ پتھر اور چٹانیں پہاڑ میں پیوست نہیں تھیں بلکہ جس پر پاؤں پڑتا وہ لڑھکتا ہوا نیچے جاتا تھا اور نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا۔ دوسرا امتحان ایک گلیشیر تھا، جو طویل اور سیدھا نیچے اترتا تھا۔ تیسری مشقت گلیشیر کے پار ایک اور چڑھائی تھی، جو اگرچہ کم بلند تھی لیکن تھی وہ بھی پتھروں اور چٹانوں پر مشتمل جسے ہمیں بڑی تگ و دو کے بعد پار کرنا ابھی باقی تھا۔

جس مقام پر اس وقت ہم موجود تھے اسے ’لُنڈی ٹاپ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ٹاپ سطح سمندر سے اندازاً 14000 فٹ بلند ہے۔ اسے شکر گڑھ پاس بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں سے کسی مستند راہنماء کی معیت میں استور تک پہنچا جا سکتا ہے۔

چڑھائی اگر مشکل تھی تو اترائی مشکل تر۔ پتھر لڑھکاتے جیسے تیسے گلیشیر پر پہنچے۔ اب یہ گلیشیر کس قسم کا تھا؟ کوئی نہیں جانتا تھا۔ کہیں کوئی گہری دراڑ ہوسکتی تھی۔ پھسلنے کا خطرہ علیحدہ تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر پھسلنا ہی ہے تو ارادتاً پھسلا جائے۔ راستہ بھی جلدی طے ہوجائے گا اور مشقت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ سو ہم نے اپنی برساتیوں کو پشت پر باندھا۔ مختصر سامان سینے سے لگایا اور پون گھنٹے کا راستہ 10منٹ میں طے کر کے پار اتر گئے۔ تیسرا اور آخری امتحان پار کرتے ہوئے چٹانیں پھلانگتے ہم ڈھلوان پر چڑھے تو جھیل سامنے آگئی۔

جھیل تو کیا تھی فطری رنگ وحسن کی ایک محفل تھی، جس میں مقامی حضرات کی گواہی کے ساتھ پہلی مرتبہ چند پردیسیوں کی شرکت ہوئی تھی۔ گہرے نیلے پانیوں کی ایک ایسی جھیل جو ہماری آمد سے قبل کوہ نوردوں سے شاید ناآشنا تھی۔ 2 اطراف سے پہاڑوں اور 2 اطراف سے سرسبز ڈھلوانوں میں گھری اس جھیل کی شکل لمبوتری ہے۔ جب تک اس کے کناروں پر نہ اترا جائے یہ مکمل طور پر سامنے نہیں آتی۔

آخری ڈھلوان کی چوٹی سے اس کا ایک حصہ پوشیدہ رہتا ہے۔ جھیل میں خاکسار اور دو دوست اترے۔ باقی 3 کو راستے کی سختیوں نے اترنے کے قابل نہ چھوڑا تھا۔ کنارے پرآذان دی اور پھر چند لمحہ ٹھہر کر ڈک (بند نما) والے راستے سے اترنے کا قصد کیا جو قدرے لمبا اور مشکل تھا۔

اس سفر میں ہم نے کوہساروں کے بے شمار حسین تحائف سمیٹے۔ ایسے نظارے جو عام لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ شکر گڑھ جھیل کے علاوہ واپسی کے سفر میں 2 اور جھیلیں ملیں جو اگرچہ بہت چھوٹی تھیں لیکن خاصی خوبصورت تھیں۔ جھیل سے واپسی پر ایک بڑا تحفہ ملا کہ جس نے سفر کی تمام دشواریاں بھلا دیں۔ وہ تحفہ کیا تھا؟ ایک ایسا نظارہ جو ہر ٹریکر کا خواب ہوتا ہے۔ وہ اس منظر کو دیکھنے کے لیے ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرنے کو دل و جان سے راضی ہوتا ہے۔۔

ہر طرف سر اٹھائے کھڑی چوٹیوں میں سب سے ممتاز، سب سے نمایاں اور سب چوٹیوں پر حاوی۔۔۔ نانگا پربت۔۔۔ جی ہاں۔ نانگا پربت کا ’روپل فیس‘ تھا۔ ایک ہوش ربا نظارہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

بیس کیمپ واپسی کے دوران ٹاپ پر لگی ٹھنڈ نے برا حال کردیا مگر راستے میں ایک بکروال نے مقامی چائے بنا کر پیش کی اور پھر تازہ دم ہو کر واپس منزل پر پہنچے۔ مقامی افراد جو گزشتہ شب آپس میں اندازہ لگانے میں مصروف تھے کہ یہ چھوٹے پھیپھڑوں والے میدانی پردیسی اس جھیل کی خاطر بلند و بالا اترائی چڑھائی کا یہ کٹھن سفر طے کر بھی پائیں گے یا نہیں؟ اب ہماری آؤبھگت میں مصروف تھے۔ حوصلے کی داد دے رہے تھے۔ اس وعدہ کے ساتھ کہ اس جھیل کو شکر گڑھ گاؤں کا نام دیا جائے گا ہم نے اگلے دن واپسی کا رخت سفر باندھا اور شام کو واپس تاؤبٹ جا پہنچے۔


لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

نصر احمد بھٹی

لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔