حکومت کے لیے سب سے مشکل چیلنج غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی ہوسکتا ہے۔ عمران خان کی کفایت شعاری پر مبنی مہم مالی صورتحال پر کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں کر پائی ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری اداروں کے ساتھ زیادتی کو بند کیا جائے، اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہر ایک ادارے کے اضافی اخراجات میں کمی کی جائے۔
ملکی بجٹ کا چوتھا بڑا حصہ دفاعی اخراجات کی صورت ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ابھی تک یہ ایسا موضوع ہے جس پر بات نہیں کی جاسکتی، لیکن اب ضروری ہے کہ اس معاملے پر ناصرف بات کی جائے، بلکہ اس پر نظرِثانی بھی ضروری ہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سیکیورٹی ایک اہم ترین معاملہ ہے، لیکن معیشت کی مضبوطی سے بھی تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بحران کا شکار معیشت ممکنہ طور پر سب سے بڑا سیکیورٹی خطرہ بن سکتی ہے۔ بیرونی امداد پر انحصار ہونے کی وجہ سے ہماری خودمختاری پر تو ویسے بھی سمجھوتا ہوچکا ہے۔ لہٰذا سیکیورٹی پر آنچ آئے بغیر اس مد میں کتوٹی کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔ کفایت شعاری کی مہم مسلح افواج تک پہنچنی چاہیے۔
یہ تو صاف ہے کہ وفاقی حکومت تنہا اس مالی بحران کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ 18ویں ترمیم کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ بن چکی ہے کیونکہ ترمیم کے تحت صوبوں کو زبردست حد تک مالی اور انتظامی خودمختاری حاصل ہے۔ ملک کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے سیاسی ہم آہنگی کا قیام ضروری ہے۔
اقتصادی اور مالی طور پر ہمارے بُرے حالات کی ایک اہم وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ایک مخلوط حکومت کے لیے مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنا اور ان پر عمل درآمد کروانا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ صورتحال کو سنبھالنے کی خاطر کچھ وقت کے لیے مالی سہارا تو فراہم کرے گا لیکن اگر ہمیں بحران سے نکلنا ہے اور ترقی کی طرف گامزن ہونا ہے تو اس کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔
پی ٹی آئی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف آئی ایم ایف پروگرام بلکہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کرنے کے لیے حزبِ اختلاف کو اپنے ساتھ بٹھائے۔ حکومت کے لیے سیاسی استحکام کے بغیر اقتصادی استحکام کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔ لڑائی جھگڑے کے موجودہ ماحول نے سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کو سنگین حد تک بڑھادیا ہے جس کا براہِ راست اثر معیشت پر پڑتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ وزیرِاعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے اسٹیٹس مین شپ کا مظاہرہ کریں اور انہیں چاہیے کہ وہ سابق وزیرِاعظم شاید خاقان عباسی کی جانب سے ’میثاق معیشت‘ پر بین الجماعتی مذکرات کے آغاز کی پیش کش کو قبول کرلیں۔
یہ مضمون 15 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔