پاکستان

سوشل میڈیا پر نازیبا تصاویر اپ لوڈ کرنے والے مجرم کو 3 سال قید کی سزا

ایف آئی اے سائبر کرائم نے مقدمہ مدعی محمد لطیف کی درخواست پر بہزاد افضل کے خلاف درج کیا تھا۔
|

لاہور کی مقامی عدالت نے لڑکی کی نازیبا تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے اور لڑکی کو بلیک میل کرنے کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو 3 سال قید اور ایک لاکھ 20 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنادی۔

جوڈیشل مجسٹریٹ عامر رضا نے لڑکی کی نازیبا تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے اور لڑکی کو بلیک میل کرنے کے کیس میں فیصلہ سنایا اور سزا کا حکم دیا۔

خیال رہے کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے شعبہ سائبر کرائم نے مقدمہ مدعی محمد لطیف کی درخواست پر ملزم بہزاد افضل کے خلاف درج کیا تھا۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر منعم چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ملزم بہزاد افضل سے مقدمہ مدعی کی بیٹی کی متعدد نازیبا تصاویر برآمد کرائی گئیں اور ملزم بہزاد نے لڑکی کی نازیبا تصاویر اس کے شوہر کو واٹس ایپ کیں۔

مزید پڑھیں: سائبر کرائم ایکٹ کے تحت عدالت نے پہلی سزا سنادی

انہوں نے بتایا کہ ملزم نے دوست لڑکی کی نازیبا تصاویر اس کے رشتہ داروں کو بھجوائیں اور سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کیں۔

سرکاری وکیل نے بتایا کہ ملزم کے اس اقدام کی وجہ سے معاشرے میں لڑکی کی تذلیل ہوئی۔

عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ملزم سے تصاویر، موبائل فون اور فیس بک آئی ڈی کی ریکوری کرلی گئی ہے اور عدالت ملزم کو سخت سے سخت سزا سنائے۔

دوسری جانب ملزم کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ ایف آئی اے نے خود ساختہ کارروائی کی اور جھوٹا مقدمہ درج کیا اور ساتھ ہی استدعا کی کہ عدالت ملزم بہزاد افضل کو مقدمہ سے بری کرنے کا حکم دے۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد جرم ثابت ہونے پر مجرم کو 21 پیکا ایکٹ کے تحت 2 سال قید اور 80 ہزار روپے جرمانے کی سزا جبکہ 24 پیکا ایکٹ کے تحت مجرم کو ایک سال قید اور 40 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: سائبر کرائم کے مجرم کو 8 سال قید کی سزا

9 مارچ 2018 کو لاہور میں ذیلی عدالت نے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت پہلا فیصلہ سناتے ہوئے لڑکیوں کو سوشل میڈیا پر تنگ کرنے والے مجرم عثمان بن مسعود کو 6 سال قید اور 7 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

سائبر کرائم ایکٹ کے تحت پہلا فیصلہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے خصوصی مجسٹریٹ امتیاز احمد نے سنایا تھا۔

رواں سال جنوری میں بھی پشاور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سائبر کرائم کے مجرم کو 8 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

متنازع سائبر کرائم بل—کیا کیا ہوا؟

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) نے اپریل 2015 میں متنازع انسداد الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2015 کی منظوری دے کر بل کو جون 2015 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔

بعدازاں رواں برس 13 اپریل کو قومی اسمبلی نے مذکورہ بل منظور کیا، تاہم بل کو قانونی شکل دینے کے لیے سینیٹ سے اس کی منظوری ضروری تھی۔

تاہم یاد رہے کہ اس بل کی منظوری انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) انڈسٹری اور سول سوسائٹی کی مخالفت اور اس پر تحفظات کو دور کیے بغیر دی گئی تھی۔ بل کے مخالفین کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے جا اختیارات دینے کے مترادف ہے۔

آئی ٹی انڈسٹری کے نمائندوں نے زور دیا تھا کہ مذکورہ بل ان کی تجارت کے لیے نقصان کا باعث ہے۔

مزید پڑھیں: سائبر کرائم کی تحقیقات: ایف آئی اے کے پاس صرف 10 ماہرین کی موجودگی کا انکشاف

جس کے بعد اپوزیشن اراکین کی مخالفت اور آئی ٹی انڈسٹری کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کو بھیج دیا گیا تھا، جہاں 26 جولائی کو اس کی منظوری دی گئی۔

بعدازاں گذشتہ ماہ 29 جولائی کو سینیٹ نے متنازع سائبر کرائم بل اپوزیشن کی 50 ترامیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کیا تھا، جسے پھر قومی اسمبلی بھیجا گیا، جہاں اسے منظور کرلیا گیا، بعد ازاں صدر کے دستخط کے بعد اسے قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔

سائبر کرائم بل کے چیدہ چیدہ نکات

سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کی مشاورت سے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی، جن کے فیصلے کے خلاف 30 دن میں ہائیکورٹ میں اپیل ہوسکے گی۔

سائبر کرائم قانون کا اطلاق پاکستان سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر بھی ہوگا۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے لائسنس ہولڈر کے خلاف کارروائی پی ٹی اے قانون کے مطابق ہوگی۔

سائبر کرائم قانون کا اطلاق پرنٹ اورالیکٹرونک میڈیا پر نہیں ہوگا، جبکہ پیمرا لائسنس کے حامل ٹی وی اور ریڈیو چینلز اس بل کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے۔

عالمی سطح پرمعلومات کے تبادلے کے لیے عدالت سے اجازت لی جائی گی اور دوسرے ممالک سے تعاون بھی طلب کیا جاسکے گا۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پر منافرت، قومی مفاد کے خلاف پروپیگنڈے کی 'نگرانی' جاری

سیکیورٹی ایجنسیز کی مداخلت کی روک تھام کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔

بل میں 21 جرائم کی وضاحت کی گئی ہے، جن پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی 30 دفعات لاگو ہوسکیں گی۔

متعلقہ حکام اس بل پر عملدرآمد کے حوالے سے سال میں 2 مرتبہ پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کریں گے۔

سائبر کرائم بل کیا ہے؟

انسداد الیکٹرونک کرائم بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔

سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔

عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشت گردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈیننس بھی سامنے آیا مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہوسکے۔

ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی (کسی ای میل اکاﺅنٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔