پاکستان

چین نے شادی کے نام پر پاکستانی لڑکیوں سے جسم فروشی کروانے کی خبریں مسترد کردیں

کچھ رپورٹس نے حقائق کو مسخ کیا، تحقیقات میں یہ سامنے آیا کہ چین میں پاکستانی خواتین سے جسم فروشی نہیں کروائی جاتی، بیان

چین نے اپنے باشندوں کی جانب سے شادی کے بعد پاکستانی لڑکیوں سے زبردستی جسم فروشی کروانے اور ان کے اعضا فروخت کرنے سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرحد پار شادی کی آڑ میں کوئی جرم کرتا ہے تو چین اس کے خلاف پاکستانی قوانین کے مطابق کارروائی کی حمایت کرے گا۔

پاکستان میں موجود چینی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم نے ذرائع ابلاغ کی خبروں اور پاکستان کی طرف سے اپنے مقامی قوانین کے تحت اٹھائے گئے اقدامات پر غور کیا اور متعلقہ کیسز کی تحقیقات کیں۔

بیان میں کہا گیا کہ بیرون ملک شادیوں کے معاملے پر چین کا موقف بہت واضح ہے اور یہ قانونی شادیوں کا تحفظ اور جرائم کو روکتا ہے اور اگر کوئی تنظیم یا شخص پاکستان میں سرحد پار شادی کے تحت کوئی جرم کرتا ہے تو چین ان کے خلاف پاکستانی قوانین کے مطابق کارروائی کی حمایت کرتا ہے۔

اس حوالے سے بیان میں کہا گیا کہ چین کی وزارت پبلک سیکیورٹی نے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کے لیے ایک ٹاسک فورس پاکستان بھیجی اور چین، پڑوسی ملک میں جرائم کو روکنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کو مزید موثر کرے گا تاکہ دونوں ممالک کے لوگوں کے مفاد اور قانونی حقوق کا تحفظ اور پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلق کی مشترکہ طور پر حفاظت کی جاسکے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی لڑکیوں سے جعلی شادیوں کے الزام میں مزید 3 چینی باشندے گرفتار

سفارتخانے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ میڈیا رپورٹس نے حقائق کو مسخ کیا اور افواہیں پھیلائیں جبکہ چین کی وزارت پبلک سیکیورٹی کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے مطابق چینی شہریوں کے ساتھ شادی کے بعد چین میں رہنے والی پاکستانی خواتین سے زبردستی جسم فروشی یا ان کے انسانی اعضا فروخت نہیں کیے جاتے۔

پاکستان میں موجود چینی سفارتخانہ افواہوں پر بیان جاری کرکے واضح کرچکا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ میڈیا کو رپورٹس میں حقائق اور مقصد سے سچ تلاش کرنا چاہیے۔

بیان میں کہا گیا کہ ہمیں امید ہے کہ چین اور پاکستان کے عوام افواہوں پر یقین نہیں کریں گے اور ہم کچھ جرائم پیشہ عناصر کو پاک-چین دوستی کو کمزور کرنے اور دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان دوستانہ جذبے کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

خیال رہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا تھا کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں کچھ چینی اور مقامی شہریوں کو قانون نافذ کرنے والوں نے مبینہ دھوکا دہی، دستاویزات کی جعلسازی، انسانی اسمگلنگ کے الزامات پر حراست میں لیا تھا۔

ساتھ ہی یہ بھی رپورٹ کیا گیا تھا کہ یہ لوگ غیر قانونی سرحد پار شادیوں میں ملوث ہیں اور یہ ہوسکتا ہے کہ یہ پاکستانی لڑکیوں سے زبردستی جسم فرشی کروانے یا ان کے اعضا فروخت کرتے ہوں۔

واضح رہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے اس طرح کی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ چینی شہری پاکستانی لڑکیوں سے مبینہ طور پر جعلی شادیاں مبینہ طور پر انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں، جس پر وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) ملک کے مختلف شہروں میں کارروائی کرکے درجنوں چینی باشندوں کو گرفتار کرچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی اسمگلنگ کے الزامات میں 11 چینی باشندے ایف آئی اے کے حوالے

اس سلسلے میں پہلے اسلام آباد میں قائم چینی سفارت خانے نے ایک بیان میں غیر قانونی شادیوں کے حوالے سے رپورٹس کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ 'چین، پاکستان کی حکومت اور قانونی نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر غیر قانونی شادیوں میں ملوث افراد کو تلاش کررہا ہے'۔

دوسری جانب 9 مئی کو ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستانی لڑکیوں کو 18 لاکھ سے 35 لاکھ روپے کے عوض چین اسمگل کرنے میں ملوث گینگ مبینہ طور پر اس شخص نے قائم کیا جو جھنگ کے علاقے حویلی بہادر شاہ میں توانائی کے ایک منصوبے کے سلسلے میں پاکستان آیا تھا۔

اس ضمن میں ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کی خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کچھ چینی شہریوں نے ایڈن گارڈن کے علاقے میں 30 ہزار روپے ماہانہ کرایے پر مکان حاصل کیا اور ایک تعمیراتی منصوبے سے وابستگی ظاہر کر کے وہاں رہنے لگے، جو 9 ماہ قبل مکمل ہوا تھا، حتیٰ کہ انہیں مقامی پولیس کی جانب سے سیکیورٹی بھی فراہم کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق منصوبے کی تکمیل کے بعد چینیوں نے شن شن شیانہے کی سربراہی میں ایک گروہ تشکیل دیا جو غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی پاکستانی مسیحی لڑکیوں کی چینی شہریوں سے شادی کروا کر انہیں اسمگل کرتے تھے۔

شن شیانہے نے اگست 2018 کو اپنے برادر نسبتی وینگ پینگ کو پاکستان بلوایا جو خود بھی گینگ کا سرگرم کارکن تھا، شن شیانہے اس کی اہلیہ اور اس کے والد، جو چین میں ایک شادی دفتر چلاتے تھے، چین سے وہ چینی لڑکوں کی تصاویر ’وی چیٹ‘ ایپلیکیشن کے ذریعے مقامی ایجنٹس کو بھجواتے تھے۔

جس کے بعد ایجنٹس وہ تصاویر مسیحی گھرانوں کو دکھاکر انہیں شادی کرنے کے لیے راضی کرتے تھے اور گینگ چینی لڑکوں سے فی شادی 18 سے 35 لاکھ روپے وصول کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کا آغاز کس طرح ہوا؟

گینگ کا سرغنہ شن شیانہے اور وینگ پینگ مقامی ایجنٹس کے ذریعے مسیحی لڑکیوں کا سراغ لگاتے تھے جنہیں شادی طے ہوجانے کی صورت میں 50 سے 70 ہزار روپے دیے جاتے تھے۔

جس کے بعد یہ دونوں غریب علاقوں کے گرجا گھروں میں جاتے تھے اور اس دوران مسیحی خاندانوں کو اس بات کی یقین دہانی کرواتے تھے کہ چینی لڑکے بھی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں بدھ مت سے نہیں۔

رپورٹ کے مطابق شادی کے تمام اخراجات دلہا ادا کرتا تھا اور اپنے سسرالیوں کو بھی مالی معاونت فراہم کرتا تھا، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ چینی دلہے فیصل آباد آکر ایڈن گارڈن والے گھر میں رہتے تھے اور جب تک اپنی ’بیویوں‘ کے ہمراہ واپس چین نہیں چلے جاتے اس وقت تک شن شیانہے کو ایک ہزار سے 5 ہزار روپے روزانہ کرایا دیتے تھے۔

لڑکیوں کی چین اسمگلنگ کا یہ کاروبار صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی کیا جارہا ہے۔