پنجاب کے نئے قانون میں مجوزہ جامع اختیارات کی منتقلی کا عمل موجودہ اقتداری نظام کے قوتِ عمل میں ایک زبردست تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ چونکہ اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے بجائے منتخبہ میئرز کو ترقیاتی کاموں کا اختیار حاصل ہوگا اس لیے ان اصلاحات پر حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اندر اور باہر موجود قانون سازوں کو لاحق تحفظات قابلِ فہم ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومتِ سندھ بھی اپنے موجودہ مقامی نظامِ حکومت کو تبدیل کرکے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا چاہے گی یا نہیں۔ بلدیاتی ملازمتوں سمیت دیگر معاملات پر زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھنے سے مقامی ادارے غیر فعال بن کے رہ جاتے ہیں۔
کس طرح زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھ کر صوبائی حکومت نے 2 کروڑ کی آبادی والے شہر میں منتخبہ حکام کو معمولی اختیارات کا حامل بنایا ہوا ہے، اس کی واضح مثال پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔ حتیٰ کہ وہاں ٹھوس کچرا اٹھانے کا کام بھی حکومتِ سندھ نے اپنے زیراختیار لے لیا ہے۔
اب اس پر حیرت کیا ہوگی اگر کراچی ایک سب سے غیرمنظم شہر بن چکا ہے، اس بدانتظامی کے باعث اہم بلدیاتی سروسز مکمل طور پر مفلوج ہیں۔ حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ جیسے دیگر میٹروپولیٹن مراکز کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہی حالات صوبے میں سنگین سیاسی اختلاف کو وسعت دینے کا باعث بنے ہیں۔ اختیارات کی منتقلی پر پیپلزپارٹی کی مزاحمت سے صورتحال مزید بدتر ہوسکتی ہے۔
18ویں ترمیم نے اختیارات صوبائی سطح تک منتقل کرکے انہیں زیادہ سے زیادہ خودمختار بنا کر پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی ریاست میں بدل دیا، پیپلزپارٹی نے جہاں اس ترمیم کی تخلیق میں مرکزی کردار ادا کیا وہیں یہ جماعت مقامی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے حوالے سے اس ترمیم میں شامل ایک اہم اصول کی تعمیل پر راضی نظر نہیں آتی۔ یہاں پر جماعت کی جمہوری اور ترقی پسند ساکھ پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اختیارات کی مقامی سطح تک منتقلی پر ان کی پالیسی ذاتی مفادات پر مبنی ہے۔
دوسری طرف، اگرچہ پنجاب میں نیا قانون بلاشبہ ایک اہم بنیادی اقدام ہے مگر منتقلی کے اس عمل کی مضبوطی اور بحالی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، جو حتی الامکان زیادہ سے زیادہ گورننس کی جمہوری سطوں کو پانے کے لیے نہایت اہم ہے۔
یہ مضمون 8 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔