نیویارک ٹائمز کے لیے تحریر کیے گئے ایک مضمون میں فیس بک کے شریک بانیوں میں شامل کرس ہیگز نے کہا کہ فیڈرل ٹریڈ کمیشن کو فیس بک کی جانب سے واٹس ایپ اور انسٹاگرام کی خریداری کو ریورس کردینا چاہیے تاکہ سوشل میڈیا اور میسجنگ مارکیٹ میں مسابقت پیدا کی جاسکے۔
انہوں کے کہا کہ فیس بک نے اجارہ داری قائم کررکھی ہے اور اس کے نتیجے میں مسابقت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے جبکہ صارفین کے لیے کسی متبادل سوشل نیٹ ورک پر منتقل ہونا ناممکن ہوگیا ہے کیونکہ کوئی اچھی ایپ ہی موجود نہیں۔
کرس ہیگز نے لکھا کہ 2011 سے کوئی سوشل نیٹ ورک متعارف نہیں ہوا اور 84 فیصد سوشل میڈیا اشتہارات براہ راست فیس بک کو ملتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ فیس بک کے مسائل کا تعلق مالیاتی نہیں۔
ان کے بقول فیس بک نیوزفیڈ کا الگورتھم اس مواد کا تعین کرتا ہے جو کروڑوں افراد روز دیکھتے ہیں، وہ مواد نفرت انگیز مواد کا تعین کرتا ہے اور اس عمل پر نظرثانی کے لیے کوئی جمہوری طریقہ کار موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مارک زکربرگ کو فیس بک کے حصص کی اکثریت کی ملکیت حاصل ہے اور ان کی طاقت پر کوئی اندرونی چیک نہیں، جبکہ کوئی حکومتی ادارہ فیس بک جیسی کمپنی پر نظر رکھنے کے لیے موجود نہیں۔
کرس ہیگز کا کہنا تھا 'مارک کا اثررسوخ بہت زیادہ ہے، کسی بھی نجی شعبے یا حکومتی فرد سے زیادہ، وہ 3 اہم ترین پلیٹ فارمز کو کنٹرول کرتے ہیں یعنی فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ، جن کو اربوں افراد روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ مارک زکربرگ اکیلے فیصلے کرتے ہیں کہ فیس بک الگورتھم کیسا ہونا چاہیے اور لوگوں کی نیوزفیڈ پر کیا نظر آنا چاہیے۔ کیسی پرائیویسی سیٹنگز استعمال ہونی چاہیے اور کونسا میسج بھیجنا چاہیے'۔
انہوں نے لکھا 'مارک ایک اچھے اور نیک شخص ہیں، مگر میں اس بات پر غصہ ہوں کہ ان کی پوری توجہ کمپنی کی ترقی پر ہے جبکہ کلک کے لیے سیکیورٹی اور شہریوں کی قربانی دی جارہی ہے'۔
فیس بک کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دیتے ہوئےانہوں نے امریکا سے ایک ایسا حکومتی ادارہ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا جو فیس بک جیسی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرے۔