وہ سیاہ ریشمی ساڑھی میں ملبوس تھی اور میک اپ کے نام پر صرف گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگا رکھی تھی۔ متناسب اور آبنوسی سنگ مرمر سے تراشیدہ مورتی سا جسم، کشادہ اور روشن پیشانی، کتابی چہرہ اور گھنی پلکوں کی اوٹ سے جھانکتی دو گہری بھوری آنکھیں، جیسے گلابی افق کے اس پار سے مجھے تکتی ہوں۔
اس کو دیکھ کر میرے ذہن میں اچانک، سرمئی بارش میں بھیگتے چیڑ کے کسی اکیلے اور سروقد پیڑ کا خیال آیا اور یہ سوچتے ہی میرے نتھنوں میں پہاڑی بارش کی خوشبو چپکے سے سرک آئی۔
یہ بات بلاشبہ درست ہے کہ میں بچپن سے ہی بہت زیادہ دل پھینک واقع ہوا تھا۔ میرے دل کے لیے حسن، کیلے کا چھلکا تھا، جہاں خوبصورت چہرہ دیکھا، فوراً سے پھسل گیا۔ میرا اس بات پر کامل یقین تھا کہ حسین آنکھوں میں کوئی سحر مقید ہوتا ہے، جہاں نظریں ملتی ہیں، سحر پھونکا جاتا ہے۔
لیکن گیتی آرا میں کوئی خاص بات ضرور تھی۔ کیونکہ مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے وقت کے دریا کے کسی کنارے ہم دونوں، کچھ دیر کے لیے ہی سہی، مگر ساعتوں کے پانی میں پاؤں لٹکائے کبھی بیٹھے ضرور تھے۔
'ہاں ایک دفعہ محبت میں مزہ ضرور آیا تھا‘۔ میں نے آنکھوں کی نمی ہاتھ کی پشت سے پونچھتے ہوئے سائیں کو جواب دیا۔ 'شاید وہ پہلی نظر کی محبت تھی۔'
'بس یہی تو سارا مسئلہ ہے منڈیا'، سائیں یکایک اٹھ کر بیٹھ گیا۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سائیں بولا کہ 'محبت کبھی بھی پہلی نظر میں نہیں ہوتی۔ پہلی نظر خواہش کی نظر ہوتی ہے۔ چاہت محبت کا بند دروازہ ہوتی ہے جو صرف خواہش کی چابی سے کھلتا ہے۔'
'پھر کیا ہوتا ہے؟'، میں پوچھے بغیر رہ نہ سکا۔
'پھر'، سائیں نے لمبا سانس لے کر کہا۔ 'پھر یہ چاہت دل کی ہانڈی میں، وقت کی آگ پر، بہت دیر تلک پکتی ہے۔ آخر میں اس ہانڈی کو باہمی احترام اور باہمی ستائش کے دم کی ضرورت پڑتی ہے۔ پھر کہیں جاکر محبت کی ہانڈی تیار ہوتی ہے۔'
'تو پھر یہ کیا ہے؟' میں نے ہاتھ سے دُور بیٹھی لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔
'یہ سب خواہش ہے۔ خواہش ڈیلیا کا پھول ہوتی ہے، رنگ دار اور دلکش اور محبت موتیے کا پھول ہوتی ہے، سادہ اور سفید لیکن خوشبودار۔ ڈیلیا کے ہزار پھول مل کر بھی موتیے کے ایک پھول کی خوشبو کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔'
میں جاتے ہوئے اس لڑکی کے قریب سے گزرا تو وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی۔ لیکن میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ میرے آس پاس صرف موتیے کی خوشبو کا راج تھا۔ اب ڈیلیا کے پھولوں کے لیے میرے دل میں کوئی جگہ نہیں تھی۔