پاکستانیوں کا غصہ
امیر مینائی نے کہا تھا
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے
یہ تو نہیں معلوم کہ شاعر کس مٹی کے بنے ہیں کہ انہیں غصے پر بھی پیار آتا ہے، ہاں لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ اس سرزمین کی مٹی کے تو نہیں بنے، کیونکہ اس مٹی سے بننے والوں کو شاعر کے محبوب کی طرح کچھ آئے نہ آئے غصہ ضرور آتا ہے، اور اب تو یہ بات پایہ تحقیق تک بھی پہنچ چکی ہے۔
مشہورِ زمانہ ادارے گیلپ نے مختلف ممالک کے باسیوں کے جذباتی رویوں سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں اقوامِ عالم میں غصے کا تناسب پیش کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان 10ویں نمبر پر جگمگا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں تو پاکستانیوں کے غصے سے ڈر کر انہیں 10ویں نمبر رکھا گیا ورنہ ہم سے زیادہ غصہ کس قوم کو آتا ہوگا؟
اگر مولانا الطاف حسین حالی ہمارا حال لکھتے تو یوں لکھتے:
کہیں دیر سے کھانا لانے پہ غصہ
کہیں پیٹ بھر کے نہ کھانے پہ غصہ
کہیں کار آگے بڑھانے پہ غصہ
کہیں لال بتی کے آنے پر غصہ
نہائے کوئی تو نہانے پہ غصہ
کوئی گھر پہ آئے تو آنے پہ غصہ
چلا کوئی جائے تو جانے پہ غصہ
صبح جلدی اُٹھنے اُٹھانے پہ غصہ
میاں چائے مانگے، پلانے پہ غصہ
کہے بیوی یہ لادو، لانے پہ غصہ
غصہ روز مرہ کی زندگی سے لے کر ہماری شاعری، فلم، سیاست اور صحافت تک ہر جگہ اپنے جلوے دکھاتا ہے۔