ایران کا امریکا کےساتھ جوہری معاہدے سے جزوی دستبرداری کا اعلان
ایران نے امریکا کی جانب سے جوہری معاہدے کی دو تجارتی استثنیٰ میں توسیع نہ دینے پر پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر معاہدے سے جزوی دستبرداری کا اعلان کردیا۔
خبررساں ادارے ’اےایف پی‘ کے مطابق تہران نے معاہدے کے فریقین ممالک برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی پرواضح کردیا کہ وہ ایران پر عائد امریکی پابندیوں کا حل تلاش کرے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی پابندیوں کا خطرہ، ایران کا جوہری معاہدے پر مزید لچک پیدا کرنے کا فیصلہ
تہران نے فریقین ممالک کو 60 دن کی مہلت دیتے ہوئے واضح کیا کہ اگر وہ ایرانی بینکنگ اور خام تیل کی تجارت سے منسلک شبعوں پر عائد پابندی ختم کرانے میں ناکام ہوتے ہیں تو تہران معاہدے کی مزید شرط سے دستبردار ہوجائےگا۔
اس حوالے سے ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ معاہدے کو عمل جراحی (سرجری) کی ضرورت ہے اور برسوں کی نفرنت سے کوئی نتائج نہیں نکلے‘۔
کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےان کاکہنا تھا کہ ’سرجری کا مقصد معاہدے کو محفوظ بنانا ہے ناکہ تباہ کرنا‘۔
ایران کے وزیر خارجہ جاوید ظریف نے زور دیا کہ ایران کا ردعمل جوہری معاہدے کے منافی نہیں اور اقوام متحدہ کے انسپکٹر بھی تہران کے موقف کی حمایت کرچکے ہیں۔
مزیدپڑھیں: امریکا کی ایران کو سویلین جوہری منصوبے جاری رکھنے کی اجازت
انہوں نے کہا کہ ’ہم جوہری معاہدے میں طے شدہ قوائد و ضوابط کے دائرے کار میں رہ کر کام کررہے‘۔
خیال رہے کہ 5 مئی کو یورپی یونین نے امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری پروگرام سے منسلک دو ’خصوصی استثنیٰ‘ میں توسیع نہ دینے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
یورپی یونین کے ممالک فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے کہا تھا کہ ’ایران کے ساتھ تیل کے شعبے سے منسلک تجارتی استثنیٰ میں توسیع نہ دیے جانے پر افسوس اور امریکی فیصلے پر تحفظات ہیں۔'
واضح رہے کہ عالمی عدالت کی جانب سے امریکا کو ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا حکم سامنے آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے تہران کے ساتھ 1955 کا معاہدہ منسوخ کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی ایران کو سویلین جوہری منصوبے جاری رکھنے کی اجازت
ایران کے ساتھ معاہدہ سابق صدر بارک اوباما کے دور میں کیا گیا تھا تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد مئی 2018 میں خود کو اس ڈیل سے علیحدہ کرلیا تھا۔
امریکا کے اس فیصلے کے بعد بھی چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی کے ایران کے ساتھ معاہدے متاثر نہیں ہوئے تھے۔