سلیم الیکٹریشن کو اپنے اس بیٹے سے بے پناہ محبت تھی لیکن اب وہ گُم ہوگیا تھا۔
اغوا ہونے کے 3 دن بعد وسیم ملا لیکن ایک لاش کی صورت جو کُوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پڑی تھی، جسے دیکھنے کے لیے اس کے دل اور آنکھوں میں تاب نہیں تھی لیکن زندگی کبھی کبھار انسان کو ایسے دوراہے پر بھی لاکھڑا کرتی ہے جہاں وہ منظر بھی دیکھنے پڑتے ہیں جن کے بارے سوچا بھی نہیں جاسکتا سو اسے دیکھنا پڑا۔ ہنستے مسکراتے معصوم وسیم کو زخموں سے چُور ایک جسم کی صورت میں۔ اس منظر کے بعد اس کا دل اور آنکھیں پہلی سی نہیں رہی تھیں۔
اس حادثے کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں نے اس کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ سلیم جو غم کے گہرے سمندر میں ڈوب گیا تھا، وہ چاہتا تھا کہ گریبان چاک کرے اور روتے روتے کسی ویرانے میں نکل جائے جہاں اس سے کوئی کسی قسم کی بات نہ کرے لیکن دنیا کے پاس ان گنت سوالات تھے۔
’تو سلیم صاحب اب جیسے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ قاتل آپ کا پڑوسی تاجی تھا، تو کیا آپ کو تاجی پر پہلے کبھی شک پڑا تھا؟‘
’کیا تاجی سے آپ کی کوئی خاص دشمنی تھی؟‘
’تاجی کو لاش پھینکتے ہوئے کیا آپ نے خود دیکھا تھا؟‘
’آپ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کیا اپیل کرنا چاہیں گے؟‘
وہ دکھ کی حالت میں کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیتا رہا اور انہی دنوں وہ خود سے یہ سوال پوچھتا تھا جو آج ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹر کی آنکھوں میں تھا۔
’سلیم الیکٹریشن اب اور جی کر کیا کرنا ہے؟‘
لیکن وہ جیتا رہا، آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا، بات پرانی ہوتی گئی۔ تاجی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی اور اس پر مقدمہ چل رہا تھا۔ سلیم ہر پیشی پر عدالت ضرور جاتا لیکن فیصلہ اگلی پیشی تک کے لیے مؤخر کردیا جاتا۔
فیصلہ نہیں آرہا تھا اور مقدمے کو چلتے ہوئے اب 7 سال گزر چکے تھے۔ اس کے دن تھے کہ مسلسل غربت میں کٹ رہے تھے، آمدن کم اور اخراجات زیادہ تھے۔ وکیل کی فیس اب اضافی بوجھ بنتی جارہی تھی لیکن وہ انصاف کے لیے قرضہ لے کر بھی فیس ضرور ادا کرتا۔ اس کا بڑا بیٹا جو 12 جماعتیں پاس کرکے بھی کئی سال سے بیروزگار پھر رہا تھا، وہ ہر روز کہتا ’ابّا مجھے ٹیکسی خرید دو، میں شہر میں چلاؤں گا۔‘
بیٹی کے رشتے کے لیے لوگ آئے تو انہوں نے جہیز میں موٹر سائیکل کا مطالبہ کردیا تھا۔
جن لوگوں سے قرض لے رکھا تھا وہ دن رات واپسی کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔
الیکٹریشن کا حوصلہ جواب دینے لگا۔ وہ 7 سال بعد پہلی بار عدالت میں پیش نہ ہوسکا۔ اخراجات کا ایک طوفان تھا جسے اس کی ہر ماہ کی تنخواہ پورا کرنے سے قاصر تھی۔ جن سے قرض لے رکھا تھا وہ اب اس کے خلاف مقدمہ کرنے لگے تھے کہ وہ جب بھی گھر پر آتے تو یہ بچوں سے کہتا ’کہہ دو کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔‘
نوکری پر جانا اس کے لیے تقریباً ناممکن ہوچکا تھا۔
پھر ایک رات اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔
اس نے سوچا اس وقت آدھی رات کو بھلا کون آسکتا ہے؟ یقیناً کوئی قرض واپس لینے ہی آیا ہوگا، سو دروازہ نہیں کھولتا۔ لیکن لگاتار دستک ہوتی رہی تو وہ اُٹھا اور آہستگی سے چلتے ہوئے دروازے تک آیا۔
’کوکو کون ہے؟‘ اس کی آواز لرز گئی تھی۔
’میں ہوں سراج‘، دوسری طرف تاجی کا باپ تھا۔
’تم، تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے دروازے پر دستک دینے کی؟‘ اس نے دروازہ کھولا اور زور سے چلایا۔
’دیکھو سلیم میری بات غور سے سنو۔ مجھے معلوم ہے تم آج کل بہت پریشان ہو۔ میرے پاس ان پریشانیوں کا حل ہے۔ باہر آؤ اور میری بات ٖغور سے سنو۔‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سراج کے ساتھ چل پڑا۔
اس بات کو 30 سال گزر چکے تھے اور اب وہ عمر کے اس حصے میں تھا جہاں راتوں کو نیند کم آتی ہے، وہ ساری رات چھت کو گُھورتا رہتا لیکن اسے نیند نہ آتی اور اگر نیند آتی بھی تو خوابوں میں اس کا بیٹا وسیم ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈیاں اُٹھائے ہوئے آجاتا اور اس سے کہتا
’ابّا تُو نے گھاٹے کا سودا کیا‘
وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھتا اور پھر ساری رات چھت گھورتے ہوئے گزر جاتی لیکن اب کئی روز سے اسے جاگتے ہوئے بھی وسیم دکھائی دینے لگا تھا۔ اسی خون آلود اسکول یونیفارم میں۔
’وسیم تم یہاں کیسے؟ تم تو فوت ہوگئے تھے۔‘ وہ جب اپنے کمرے کی کرسی پر وسیم کو بیٹھے دیکھتا تو اس سے پوچھتا۔
وسیم چلتا ہوا اس کے قریب آتا اور اس کے سامنے نوٹ لہرا کر کہتا۔
’ابّا ان نوٹوں کی خوشبو کیسی ہے؟‘
وہ گھبرا کر منہ دیوار کی جانب کر لیتا جہاں وسیم اپنی خون آلود شرٹ تھامے کھڑا ہوتا۔
’میرے بچے مجھے معاف کردو۔ یہ حالات کا فیصلہ تھا، اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔‘
کئی بار جب وہ وسیم سے باتیں کررہا ہوتا تو آواز بہت اونچی ہوجاتی اور اس کے بچے اس سے پوچھتے کہ وہ خالی کمرے میں کس سے باتیں کررہا ہے؟ ایک روز اس نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا کہ ’بیٹا تمہارا چھوٹا بھائی وسیم جو کئی سال پہلے فوت ہوگیا تھا، اب ہر روز اس کمرے میں آتا ہے اور وہ سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ میں منہ دوسری طرف پھیر لوں تو پلنگ پر چڑھ آتا ہے اور ہاتھ میں وہی خون آلود یونیفارم ہوتا ہے جو ڈھیر پر ملا تھا۔‘
’ابّا دوا وقت پر لیا کریں اور جلدی سوجایا کریں، یہ سب وہم ہے آپ کا۔‘ اس کے بیٹے نے کہا۔
اس کے دن رات اسی طرح روتے دھوتے گزر رہے تھے اور آج رات اس کے سینے میں درد کی ایک لہر اُٹھی تھی اور وہ چلّا اٹھا تھا۔
ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹر کی آنکھوں میں وہی سوال تھا جو 30 برس پہلے وسیم کی گمشدگی کے 3 روز میں اس نے خود سے کئی بار پوچھا تھا لیکن وہ جیتا رہا تھا۔
’ڈاکٹر صاحب کیا فوت ہوئے لوگ بھی نظر آسکتے ہیں؟‘ اس نے آکسیجن ماسک ہٹا کر ڈاکٹر سے پوچھا۔
’چاچا جی خواب میں نظر آسکتے ہیں‘، ڈاکٹر نے کہا۔
محمد جمیل اختر
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔