پاکستان

والدین کی وہ غلطی جو بچوں کی زندگیاں خراب کررہی ہے

آج بچے اسکول سے آتے ہی ٹیبلٹ اٹھاتے ہیں اور اس کے بعد رات سونے کے وقت تک ان کا زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزرتا ہے۔

زیادہ نہیں بس 3 دہائیوں پہلے کی بات ہے جب پاکستان میں صرف ایک ٹی وی چینل "پی ٹی وی" ہوا کرتا تھا اور ہر صبح مستنصر حسین تارڑ کے مارننگ شو میں کارٹون دیکھنے کے بعد بچے صرف شام 4 بجے ٹی وی اسکرین کے سامنے ہوتے تھے تاکہ اپنے پسندیدہ کارٹون پروگرامز یا "عینک والا جن"سے لطف اندوز ہو سکیں۔

ان کارٹونز یا پروگراموں کا تیکنیکی معیار جتنا بھی کم ہو اس حوالے سے پی ٹی وی کی پالیسی ہمیشہ سخت رہی کہ بچوں کی انٹر ٹینمنٹ کا ایک مخصوص اور مختصر وقت ہوگا تاکہ وہ اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دے سکیں، مگر پھر پرائیویٹ چینلز کی بہار اور ڈش انٹینا کے بدولت جہاں ہمیں تیز تر اور درست خبروں کے ساتھ بہتر انٹر ٹینمنٹ میسر آئی وہیں بچوں کے لیے مخصوص اصول بھی تبدیل ہوتے گئے۔

آج بچے اسکول سے آتے ہی ٹی وی کا ریموٹ یا اپنا ٹیبلٹ اٹھاتے ہیں اور اس کے بعد رات سونے کے وقت تک ان کا زیادہ تر وقت کسی نہ کسی صورت میں آن اسکرین گزرتا ہے، بالائی طبقے کے علاوہ متوسط طبقے کے گھرانوں میں بھی نوٹ کیا جا رہا ہے کہ والدین اس حوالے سے سختی کرنے کے بجائے بچوں کو خود ہی ٹیبلٹ یا آئی پیڈ خرید کر دے رہے ہیں جبکہ بیشتر مائیں چھوٹے بچوں کو بہلانے کے لیے ٹی وی کھول دیتی ہیں تاکہ وہ خود سکون سے کام کر سکیں۔

شٹر اسٹاک فوٹو

کچھ عرصے قبل احمد نامی ایک 5 سالہ بچہ سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہوا۔ سوشل میڈیا پر اس پیارے بچے کی کچھ ویڈیوز وائرل ہوتے ہی متعدد مارننگ شوز میں احمد کو اس کے والد کے ساتھ مدعو کیا گیا اور کچھ اوٹ پٹانگ حرکتیں کروا کر اپنے اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھائی گئی۔

اس طرح بچے کو جان بوجھ کر غصہ دلا کر اس سے غلط باتیں کہلوانے پر عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی، وہیں کچھ افراد کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ آیا بچوں کی ویڈیوز اس طرح سوشل میڈیا پر ڈالنا ایک درست عمل ہے کیونکہ لامحالہ والدین، اساتذہ، یا رشتے داروں کا یہ طرز عمل ان کے ننھے ذہنوں میں موبائل، ٹیبلٹ کا استعمال اور آن اسکرین ٹائم کو فروغ دے رہا ہے۔

مگر یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے بچوں میں الیکٹرانک آلات کی اسکرین کا بڑھتا ہوا استعمال ایک عالمی مسئلے کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین اپنے دن کا بڑا حصہ ان ڈیوائسز کے ساتھ گزرتا ہے، جن کی دیکھا دیکھی بچے بھی گھر سے باہر کھلی فضا میں کھیل کود سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اب ویڈیو گیمز کھیلنا یا ٹیبلٹ پر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔

مگر ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک سال سے 5 سال کی عمر کے بچے اگر اپنا زیادہ وقت ٹی وی اسکرین، موبائل، ٹیبلٹ وغیرہ پر گزارے تو ان کے ننھے دماغوں پر اس عادت کے دور رس اور گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ ریڈیائی لہروں سے ان کے دماغ میں ایسی اندرونی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں جو لا علاج ہیں اور شعور کی منزلوں کو طے کرتے ہی یہ مسائل زیادہ کھل کر سامنے آتے ہیں۔

شٹر اسٹاک فوٹو

ان مسائل کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے ایک سے 5 سال کے بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک نیا پروٹوکول جاری کیا ہے جس میں والدین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس عمر میں بچوں کو کسی بھی قسم کی اسکرین سے مکمل طور پر دور رکھیں یا زیادہ سے زیادہ انہیں 1 سے 2 گھنٹے کا وقت دیا جائے جس میں انہیں صرف کارٹون دیکھنے کی اجازت ہو۔

اس کے ساتھ ہی بچوں میں کھلی فضا میں کھیلنے کودنے اور اچھی نیند لینے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ان کے ننھے دماغوں کو زیادہ سے زیادہ سکون مل سکے۔

عموما نوٹ کیا جاتا ہے کہ بچے کارٹونز یا ویڈیو گیمز کے تھرل میں اس قدر مبتلا ہوتے ہیں کہ رات میں سونے کے بجائے اسکرین کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں چڑچڑاہٹ کے علاوہ بچپن سے ایک غیر مستقل مزاجی فروغ پانے لگتی ہے جو عمر کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل جس تیزی کے ساتھ کسی ایپلیکیشن، گیم، پروگرام یا کسی اور کام کے تھرل میں مبتلا ہوتی ہے وہ اسی تیزی کے ساتھ چند دن میں ان کے دل سے اتر بھی جاتا ہے اور یہ غیر مستقل مزاجی ان کے مجموعی رویوں کا حصہ بنتی جارہی ہے۔

تحقیق کے مطابق 2 سے 4 یا 5 سال کا دورانیہ بچوں کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب وہ ماں کی گود اور باپ کی انگلی کو چھوڑ کر اپنے طور پر زندگی، رشتوں اور رویوں کو سمجھنے کی کوشش کا آغاز کرتے ہیں، اس دوران والدین کی جانب سے کی جانے والی کوئی چھوٹی سے لاپرواہی یا کوتاہی ان کے لیے عمر بھر کا روگ بن سکتی ہے، دیکھا گیا ہے کہ 25 سے 40 سال کی عمر کے جو افراد اپنے نفسیاتی مسائل کے لیے تھراپسٹ یا ماہر نفسیات کے رجوع کرتے ہیں ان کے اصل مسئلے کی جڑ کسی نہ کسی صورت میں 2 سے 4 سال کی عمر میں ہونے والے کسی واقعے سے منسلک ہوتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایسے ممالک جہاں والدین میں خواندگی کی شرح زیادہ نہیں، ان کی نوجوان نسل میں ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی عوارض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ والدین چھوٹے بچوں کی تربیت کے معاملے میں زیادہ محتاط نہیں ہیں۔

شٹر اسٹاک فوٹو

ٹیکنالوجی کے انقلاب سے جہاں ہمارے معاشرتی رویوں میں واضح تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہیں والدین کا اندازِ تربیت بھی کافی زیادہ تبدیل ہوگیا ہے، چھوٹے بچے اگر والدین کی دیکھا دیکھی موبائل کے لیے ضد کرتے ہیں تو انہیں کسی اور کھیل یا شغل میں لگانے کے بجائے والدین جان چھڑانے کے لیے انہیں موبائل فون تھما دیتے ہیں حالانکہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ 6 ماہ سے 18 ماہ کی عمر کے بچوں کو اسمارٹ ڈیوائسز کے استعمال سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ان کے ننھے ذہنوں پر ریڈیائی لہروں سے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں جن سے ان کی برین کیمسٹری براہ راست متاثر ہوتی ہے۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں بچوں کو اسکرین سے دور رکھنا کس طرح ممکن ہوگا جب والدین خود ہی ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل اسکرین کے عادی ہوچکے ہیں، بچوں کی بہترین تربیت کے لیے والدین کو اپنی عادات میں تبدیلیاں کرنے کے علاوہ خود کو ان کی تربیت کے لیے مکمل طور پر اپ ڈیٹ اور ایجوکیٹ کرنا ہوگا، جس کے لیے ہر ملک میں باقاعدہ تربیتی مراکز اور کورسز کا آغاز کیا جانا ضروری ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ایک باقاعدہ پالیسی بنا نے کے بعد اس کام کا آغاز کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے، اس کے لیے مکمل تحقیق کے بعد ایجوکیشن پروگرام تیار کیا جائے گا۔

الیکٹرانک ڈیوائسز کے استعمال پر مکمل پابندی کے بعد والدین کو سکھایا جائے گا کہ وہ کس طرح بچوں میں صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دے سکتے ہیں، جس کے لیے انہیں خود انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی دنیا سے نکل کر بچوں کو مناسب وقت دینا ہوگا، گھر سے باہر کھیل کود اور سیر و تفریح کے لیے باقاعدہ لے کر جانے سے وہ آہستہ آہستہ ویڈیو گیمز یا آن سکرین مشاغل سے خود ہی دور ہونے لگیں گے۔

اس کے علاوہ وقت پر سونا اور بھرپور نیند لینا بھی بچوں کے لیے بہت ضروری ہے اور جس کے لیے والدین کو اپنے معمولات میں تبدیلیاں لاکر اپنے عمل سے انہیں پابند کرنا ہوگا۔

چھوٹے بچے ماں باپ کے مشاغل اور روٹین کو بہت تیزی سے کیچ اور جج کرتے ہیں اور اگر انہیں وہی سب کچھ کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو ان کے ننھے ذہن اسے خودغرضی یا محبت میں کمی شمار کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ والدین خود جو کام اپنی تفریح کے لیے کرتے ہیں وہ ہمیں نہیں کرنے دیتے اور پھر یہ سوچ مستقبل میں ان کے صحت مندانہ رویوں اور رشتوں میں رکاوٹ بنتی ہے۔

شٹر اسٹاک فوٹو

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں انسان کو ہر طرح کی سہولیات اور آسائشیں تو حاصل ہوگئیں مگر اس کی سماجی و معاشرتی زندگی مسلسل کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔

ٹیکنالوجی کے اندھا دھند استعمال نے ہمیں ذاتی رشتوں کی اصل محبت اور چاشنی سے بہت دور کردیا ہے، الیکٹرانک آلات اور آن اسکرین ٹائم نے والدین اور بچوں میں فاصلے بہت بڑھا دیئے ہیں اور اس خلیج کو پاٹنے کے لیے ہمیں ریورس گیئر لگا کر انہی گئے وقتوں میں واپس جانا ہوگا، جہاں بھلے ایک ٹی وی چینل اور بچوں کی تفریح کے مخصوص گھنٹے تھے، بھلے یہ آئی پیڈ اور ٹیبلٹ کی بھرمار نہیں تھی مگر اس دور کے بچے اور نوجوان نسل آج کی طرح کم از کم نفسیاتی و ذہنی عوارض کا شکار ہرگز نہیں تھے۔


صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے saadeqakhan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔