والدین کی وہ غلطی جو بچوں کی زندگیاں خراب کررہی ہے
زیادہ نہیں بس 3 دہائیوں پہلے کی بات ہے جب پاکستان میں صرف ایک ٹی وی چینل "پی ٹی وی" ہوا کرتا تھا اور ہر صبح مستنصر حسین تارڑ کے مارننگ شو میں کارٹون دیکھنے کے بعد بچے صرف شام 4 بجے ٹی وی اسکرین کے سامنے ہوتے تھے تاکہ اپنے پسندیدہ کارٹون پروگرامز یا "عینک والا جن"سے لطف اندوز ہو سکیں۔
ان کارٹونز یا پروگراموں کا تیکنیکی معیار جتنا بھی کم ہو اس حوالے سے پی ٹی وی کی پالیسی ہمیشہ سخت رہی کہ بچوں کی انٹر ٹینمنٹ کا ایک مخصوص اور مختصر وقت ہوگا تاکہ وہ اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دے سکیں، مگر پھر پرائیویٹ چینلز کی بہار اور ڈش انٹینا کے بدولت جہاں ہمیں تیز تر اور درست خبروں کے ساتھ بہتر انٹر ٹینمنٹ میسر آئی وہیں بچوں کے لیے مخصوص اصول بھی تبدیل ہوتے گئے۔
آج بچے اسکول سے آتے ہی ٹی وی کا ریموٹ یا اپنا ٹیبلٹ اٹھاتے ہیں اور اس کے بعد رات سونے کے وقت تک ان کا زیادہ تر وقت کسی نہ کسی صورت میں آن اسکرین گزرتا ہے، بالائی طبقے کے علاوہ متوسط طبقے کے گھرانوں میں بھی نوٹ کیا جا رہا ہے کہ والدین اس حوالے سے سختی کرنے کے بجائے بچوں کو خود ہی ٹیبلٹ یا آئی پیڈ خرید کر دے رہے ہیں جبکہ بیشتر مائیں چھوٹے بچوں کو بہلانے کے لیے ٹی وی کھول دیتی ہیں تاکہ وہ خود سکون سے کام کر سکیں۔