اس کام کا مقصد آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی (اے آئی) کو تربیت دینا اور نئی مصنوعات کے بارے میں معلومات دینا ہے۔
مگر یہ کنٹریکٹرز صارفین کی پبلک کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ پوسٹس پر بھی نظرثانی کرتے ہیں جو کہ پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے۔
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی شہر حیدرآباد میں 260 کنٹریکٹ ملازمین نے ایک سال کے عرصے میں 2014 کی 10 لاکھ سے زائد پوسٹس کو لیبل دیئے۔
یہ عملہ پوسٹ کا عنوان، موقع اور لکھنے والے کا مقصد دیکھتا اور فیس بک کے مطابق اس معلومات کو نئے فیچرز تشکیل کے ساتھ ساتھ صارفین کی انگیج منٹ بڑھانے کے مواقع اور اشتہاری آمدنی میں اضافے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں فیس بک کے ایسے ہی 200 لیبلنگ پراجیکٹس کام کررہے ہیں، جن میں سے بیشتر کا کام اے آئی کو تربیت دینا ہے۔
ویسے یہ کوئی نیا کام نہیں، بیشتر کمپنیاں اس طرح کا عملہ بھرتی کرکے ایسا کام کرتی ہے۔
مگر یہ بات فیس بک صارفین کے مزاج کو بہتر نہیں بناسکتی جن کی نجی پوسٹس بھی درحقیقت اس کمپنی کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔
حیدرآباد میں کام کرنے والے عملے کے افراد نے رائٹرزر کو بتایا کہ وہ صارفین کی ہر چیز یعنی تحریری اسٹیٹس اپ ڈیٹس سے ویڈیوز، فوٹوز اور اسٹوریز فیس بک اور انسٹاگرام پر دیکھتے ہیں، چاہے اس مواد کو پرائیویٹ ہی کیوں نہ پوسٹ کای گیا ہو۔
اب فیس بک کہتی ہے کہ مستقبل پرائیویٹ پلیٹ فارم کا ہے مگر ایک فیس بک ملازم نے رائٹرز کو بتایا کہ وہ تصور نہیں کرسکتا کہ اس طرح کی مشق کو ختم کردیا جائے گا کیونکہ یہ اے آئی کی تربیت اور کمپنی کی مصنوعات کی تیاری کے لیے انتہائی ضروری ہے۔