دنیا

شمالی کوریا کامختصر فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا تجربہ

یہ میزائل جاپانی سمندر کے نام سے مشہور 'ایسٹ سی' کی طرف 70سے200 کلومیٹر کے فاصلے تک ہدف کو نشانہ بناسکتے ہیں،جنوبی کوریا

شمالی کوریا نے امریکا سے مذاکرات اور عالمی دباؤ کے باعث ایک برس تک میزائلوں کے تجربوں کے حوالے سے مکمل خاموش رہنے کے بعد بالآخر سمندر میں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والے چھوٹے درجے کے میزائل (پروجیکٹائل) کا تجربہ کر لیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' نے اپنی رپورٹ میں جنوبی کوریا کی فوج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا نے سمندر میں میزائل کا تجربہ کیا، جس کی شناخت نہیں ہوسکی۔

جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے ایک بیان میں کہا کہ ‘شمالی کوریا نے جزیرہ ہودو کے قریب سے شمال مشرقی علاقے کی جانب مختصر فاصلے کے کئی میزائلز کا تجربہ کیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ میزائل سمندر میں جاپان کے نام سے مشہور 'ایسٹ سی' کی طرف 70 سے 200 کلومیٹر کے فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بناسکتے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا-شمالی کوریا کی ناکام ملاقات کی وجہ ٹرمپ کاغذ کا ‘ایک ٹکڑا’

قبل ازیں شمالی کوریا نے نومبر 2017 میں آخری مرتبہ میزائل تجربہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کے درمیان ملاقاتیں ہوئی تھیں جس کے نتیجے میں شمالی کوریا نے میزائل تجربوں کو موخر کرتے ہوئے امریکی تحفظات دور کرنے کا اشارہ دیا تھا۔

رواں برس فروری میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ویت نام میں ملاقات ہوئی تھی تاہم شمالی کوریا کو جوہری اسلحے کے حوالے سے پابندیوں میں نرمی میں توسیع دینے کے معاملے پر اختلافات کے باعث غیر معمولی انداز میں مذاکرات ختم کر دیئے گئے تھے۔

شمالی کوریا نے مطالبہ کیا تھا کہ پابندیوں کے حوالے سے فوری نرمی کا اعلان کیا جائے لیکن اس کے جواب میں شمالی کوریا کے اقدامات پر دونوں فریقین کا اختلاف سامنے آیا تھا۔

شمالی کوریا نے میزائل کا تجربہ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کینگ کیونگ ووہا کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کے لیے اسلحے کی تخفیف کے واضح اور شفاف ثبوت دکھانے کا مطالبہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ شمالی کوریا کے نائب وزیرخارجہ نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے شمالی کوریا کے معاشی پابندیوں کو ختم نہیں کیا تو غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: شمالی کوریا پر عائد تمام پابندیاں نہیں ہٹائی جاسکتیں، ٹرمپ

شمالی کوریا کے ایک تجزیہ کار کا ان تجربوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ ‘تازہ تجربوں سے کم جونگ ان کے وعدوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وعدوں میں وسیع پیمانے پر بلیسٹک میزائل کے تجربے پر خودساختہ پابندی لگائی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘تاریخی طور پر دیکھا جائے تو شمالی کوریا نے امریکا سے مذاکرات کے دوران کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں کیا’۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس ناکام رہنے والی ملاقات کی ذمہ داری شمالی کوریا پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'بعض اوقات آپ کو چلنا پڑتا ہے'، ایک تجویز کردہ معاہدے پر دستخط ہونے تھے جس میں جلد بازی کے بجائے میں درست معاہدہ کرنا بہتر سمجھتا ہوں۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ ہم کچھ خاص کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘۔

دوسری جانب پیانگ یانگ اپنے جوہری پروگرام کو خلیج نما کوریا کی سیکیورٹی کی مضبوط ترین ضمانت کے طور پر دیکھتا ہے۔

اس حوالے سے کم جونگ اُن نے کہا تھا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے تیار ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تو میں اس وقت یہاں نہیں ہوتا‘۔