دنیا

افغانستان: لویہ جرگے کا ’ فوری اور مستقل‘ جنگ بندی کا مطالبہ

جنگ بندی کے جائز مطالبے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں، یہ یک طرفہ نہیں ہوسکتا، افغان صدر اشرف غنی

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے 4 روزہ گرینڈ اسمبلی (لویہ جرگے) نے ملک بھر میں فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی ‘ کی رپورٹ کے مطابق کابل میں قیام امن سے متعلق تاریخی ’ لویہ جرگہ ‘ اختتام پذیر ہوگیا جس میں ملک بھر سے شریک وفود نے فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

افغان صدر اشرف غنی نے جرگے کے مطالبے پر کہا ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں۔

رواں ہفتے منعقد کیے گئے 4 روزہ گرینڈ اسمبلی یا لویہ جرگے میں افغانستان بھر سے تقریباً 3 ہزار 2 سو رہنماؤں، قبائلی عمائدین اور سیاست دانوں نے افغان تنازع کے حل کے لیے بحث کی۔

لویہ جرگے کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت اور تحریک طالبان کو فوری طور اور مستقل جلد بندی کا اعلان اور اس پر عملدرآمد کرنا چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: افغانستان: گرینڈ اسمبلی میں دونوں اطراف سے جنگ بندی کی تجویز

انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے آغاز سے قبل شروع ہونا چاہیے۔

افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ ’وہ جنگ بندی کے اس جائز مطالبے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں ‘ لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ ’ یہ یک طرفہ نہیں ہوسکتا‘۔

اشرف غنی نے ایک تقریر میں کہا کہ ’ اگر طالبان جنگ بندی کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں تو ہم تکنیکی تفصیلات پر بات چیت کرسکتے ہیں‘۔

طالبان کی جانب سے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا جو اس وقت قطر میں امریکی نمائندہ امن عمل کے ساتھ علیحدہ مذاکرات میں مصروف ہیں۔

تاہم گزشتہ برس اشرف غنی کی جانب سے رمضان کے آغاز میں 8 دن کے لیے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد طالبان نے رمضان کے آخر میں 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

دوحہ میں امریکا-طالبان مذاکرات

رواں ہفتے امریکی نمائندہ امن عمل اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا سے متعلق معاہدے پر توجہ مرکوز کی جائے گی جس کے بدلے میں طالبان کی جانب سے ضمانت دی جائے گی کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہ کی کارروائیاں جاری نہیں رہیں گی۔

افغان معاشرے کا ایک بڑا حصہ پریشان ہے کہ اگر امریکا، طالبان کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے تو وہ اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے اور خواتین کے حقوق، میڈیا کی آزادی اور قانونی حفاظت میں کی گئی تبدیلیوں کا خاتمہ کردیں گے۔

جرگے میں ایسے خدشات اہم تھے جہاں شریک سیکڑوں خواتین نے طالبان سے مذاکرات کے لیے خطرات کی نشاندہی کی۔

کمیٹی رکن فیض اللہ جلال نے اجلاس کو بتایا کہ ’ ہم ایسا امن نہیں چاہتے جس میں خواتین کے حقوق کا احترام نہ ہو، آزادی اظہار رائے کی یقین دہانی نہ ہو، انتخابات کا انعقاد نہ ہو‘۔

گزشتہ روز امریکی نمائندہ امن عمل زلمے خلیل زاد نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ انہوں نے طالبان کو بتایا کہ ’ افغان شہری جو ان کے بھائی اور بہنیں ہیں، وہ اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، یہ ہتھیار چھوڑنے، انتہا پسندی کو روکنے اور امن قائم کرنے کا وقت ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کابل: پارلیمنٹ میں طالبان امن مذاکرات پر بحث، شہر میں نظام زندگی مفلوج

دوسری جانب مخالفین نے جرگے کو متنازع قرار دیتے ہوئے اسے اشرف غنی کی انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا۔

جن رہنماؤں کی جانب سے جرگے کا بائیکاٹ کیا گیا ان میں چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار شامل ہیں، یہ دونوں رہنما رواں برس ستمبر میں ہونے والے انتخابات کے صدارتی امیدوار ہیں۔

یہ جرگہ نومنتخب پارلیمنٹ کے افتتاحی سیشن کے 3 روز بعد منعقد کیا گیا، لویہ جرگہ پشتو میں ’گرینڈ اسمبلی‘ کو کہتے ہیں، جس کا اجلاس روایتی طور پر افغان عمائدین پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس حوالے سے گزشتہ جرگہ 2013 میں اس وقت منعقد ہوا تھا جب افغان حکام نے ایک سیکیورٹی معاہدے کی توثیق کی تھی، جس کے تحت 2014 میں انخلا کے منصوبے سے آگے جاتے ہوئے امریکی فوجیوں کو افغانستان میں رکنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس سے قبل 2003 میں سابق افغان صدر صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں ہونے والے لویہ جرگہ میں طالبان کے دور کے بعد افغانستان کے نئے آئین کی منظوری دی گئی تھی۔

ماضی میں طالبان کی جانب سے لویہ جرگہ خیمے پر راکٹ فائر کیے گئے تھے جس کو دیکھتے ہوئے رواں سال کے ایونٹ کے لیے سخت سیکیورٹی آپریشن کے تحت کابل کو بند کردیا گیا ہے۔