صحافت سے دم توڑتی مزاحمت دیکھ کر ڈر لگتا ہے
مجھے ڈر لگتا ہے، بچپن سے، اندھیرے سے، سیاہ سائے سے، بچپن کی کہانیوں کے خوفناک کرداروں سے۔
یاد ہے جب شام کے سائے ڈھلتے تو میرے آبائی گھر لکھپت بھون میں چارپائیاں ڈل جاتیں اور نانی کہانی سناتیں۔
جب ہمارے شہر لاڑکانہ پر مصیبت آتی تو ہزاروں برس قدیم موہن جو دڑو کے کھنڈرات سے بھوت پریت اس کے گرد حفاظتی حصار کھینچ لیتے۔
بچپن میں کہانیاں سننا، پڑھنا یہ مشغلہ غالباً میرے فارسی بان نانا، جنہیں ہم بابو جی پکارتے تھے، ان سے ملا۔
الف لیلیٰ، ہزار داستان، طلسم ہوشربا، یوں سمجھ لیجیے قصہ گوئی یا کہانی بیان کرنے کا چسکا ایسا لگا کہ آج بھی اپنے آپ کو قصہ گو ہی سمجھتا ہوں۔
لڑکپن میں محلے کی سرحد پار کرکے، مرچو بدمعاش اور اس کے دوستوں کا خوف، ماں کے ساتھ قبرستان میں باپ کی قبر پر جانا اور قبرستان کے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ کا خوف۔
اندھیرے، خوف اور کالے سائے۔
بھٹو کی پھانسی، بکتر بند گاڑیاں، بوٹوں کی چاپ، کرفیو، اندھیری راتوں میں چھاپے، سیکڑوں نوجوانوں کی گمشدگیاں۔
اب میرے گھر کے آنگن میں افسانوی کہانیوں کے بجائے تلخ حقیقت پر مبنی کہانیاں بیان ہوتیں ہیں۔
یوں سمجھ لیں کہ پاکستان کے داغدار سیاسی تھیٹر پر بھٹو خاندان کا سانحہ، آمریت کا جبر، نوعمری میں ایک تماش بین اور نوجوانی میں جمہوریت کی جدوجہد میں اسٹریٹ تھیٹر کی کہانیاں لکھنے والے کا کردار ادا کیا۔