خیال رہے کہ سلیم شہزاد ایشیا ٹائمز آن لائن اور اندکرونوز انٹرنیشنل کے لیے کام کررہے تھے اور ایک ماہ قبل ہی انہوں نے کراچی کی مہران بیس پر ہونے والے حملے کے بارے میں رپورٹ دی تھی۔
ضرور پڑھیں: دنیا بھر کے صحافی اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرنے پر مجبور
ان کی بیوہ نے بتایا کہ ’بچوں کو علم تھا کہ جب سلیم کام کررہے ہوں تو وہ ان کے پاس نہیں جاسکتے، وہ مجھے کہتے تھے کہ بچوں کو سلادو تا کہ وہ اپنے کام پر توجہ دے سکیں یا پھر وہ گھر میں بنائے اپنے آفس میں جا کر لکھتے تھے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سلیم کو اپنے کام کی بہت لگن تھی، جب ہماری ملاقات ہوئی اس وقت بھی وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملائیشیئن قونصلیٹ کے لیے کام کرتے تھے، وہ ایک رحم دل انسان تھے‘۔
پی ایف ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے یورپی یونین کے انسانی حقوق پروگرام سے تعلق رکھنے والے علی دیان حسن نے کہا تھا کہ سلیم شہزاد نے انہیں چند روز قبل آگاہ کیا تھا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے جس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس کیس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بھی تشکیل دیا تھا لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوسکا۔
رپورٹ کے مطابق اس سے قبل بھی صحافیوں کے قتل کی تحقیقات بھی منظرِ عام پر نہیں لائی گئیں، اس لیے یہ واضح نہیں کہ اس تحقیقات کا معاملہ کسی بھی طرح مختلف ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس کیس کے تفتیشی افسر نے بتایا تھا کہ عدم شواہد کی بنا پر اس کیس کو وقتی طور پر بند کردیا گیا ہے۔
گمشدہ کَڑیاں
ایک دہائی قبل شمشاد ٹی وی کے بیورو چیف اور بی بی سی کے رپورٹر جان اللہ ہاشمزادہ پر ہونے والی فائرنگ کا معاملہ بھی ہنوز حل طلب ہے، وہ ایک منی بس میں سوار تھے جسے روک کر انہیں نقاب پوش حملہ آوروں نے 6 گولیاں ماریں۔
ڈینئل پرل کے برعکس جن کا کیس حل کرلیا گیا تھا، ہاشمزادہ کے قتل کا نہ تو عدالت میں مقدمہ ہوا نہ ہی اس سلسلے میں کوئی تحقیقات ہوئیں۔
مزید پڑھیں: ’5 برسوں میں 26 صحافی قتل، کسی ایک قاتل کو بھی سزا نہیں ہوئی‘
پی ایف ایف کے مطابق ان 48 کیسز کو اگر صوبوں کے لحاط سے تقسیم کیا جائے تو زیادہ تر صحافیوں کو تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے رپورٹنگ پر نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں ایسے بھی کئی کیسز کا تذکرہ موجود ہے جن میں کوئی بھی گرفتاری نہ ہونے کے سبب یا عدم شواہد کی بنا پر انہیں بند کردیا گیا، ایک سے زائد کیسز ایسے ہیں جس میں ملزمان مفور ہیں اور کوئی پیشرفت نہ ہوسکی جبکہ کم از کم 3 مقدمات میں ملزمان کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر قتل میں نامعلوم ملزمان ملوث ہیں جبکہ 3 صحافیوں کے قتل کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی، ایک کی جونیجو قبیلے اور 2 کی ذمہ داری آئی ای ڈی نے قبول کی۔
اس طرح اب تک 5 مقدمات حل ہوسکے ہیں، 4 عدالت میں زیر التوا ہیں اور 24 سے زائد وارداتوں میں کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔
جسمانی تشدد یا اغوا
اپنی رپورٹ میں پی ایف ایف کا کہنا تھا کہ اس نے 2018 میں 6 صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کیں تاہم وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کیسز میں بنیادی محرک ذاتی، کاروباری یا کام کے حوالے سے دشمنی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں 2018 کے دوران 94 صحافیوں کا قتل
پاکستانی صحافیوں کے لیے جسمانی بدسلوکی ایک بڑا خطرناک مسئلہ ہے، تحقیق کے مطابق جسمانی بدسلوکی کے کم از کم 22 واقعات ہیں جن میں 5 صحافی زخمی اور 25 کو ان کی صحافتی ذمہ داریوں سے روکنے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح صحافیوں کا اغوا بھی ایک عام طریقہ کار ہے تا کہ میڈیا کو حساس معاملات پر اظہارِ خیال سے روکا جاسکے، پی ایف ایف نے اغوا اور اغوا کی کوششوں کے 3 کیسز کی نشاندہی کی جن میں دی نیشن کی کالم نگار گل بخاری، فرانس 24، نیویارک ٹائمز اور دی گارجیئن کے رپورٹر طحٰہ صدیقی اور ایکسپریس نیوز کے نمائندے اور کوہلو پریس کلب کے صدر زیبدار مری شامل ہیں۔
میڈیا کی حالیہ صورتحال اور حل طلب کیسز کے حوالے سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ افضل بٹ کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند سالوں نے غیر اعلانیہ اور غیر سرکاری سینسر شپ نافذ ہے، جس سے بعض اوقات ملک میں آمرانہ دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلے ہم آواز اٹھا سکتے تھے لیکن اب ایسا کرنا ممکن نہیں، تنخواہوں میں کٹوتیوں اور جبری برطرفیوں نے معاملات خراب کردیے ہیں، پاکستان میں صحافیوں کی نوکری اور جان کے تحفظ کی ضمانت نہیں‘۔
دفاتر بند
صحافیوں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے پریس کلبز کو بھی خاموش رہنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے مثال کے طور پر خضدار میں پریس کلب کے صدر محمد خان ساسولی کو 2010 میں گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔
جن کے 4 سال بعد کلب سے منسلک صحافیوں کو دھمکیاں موصول ہونے کے بعد پریس کلب کو ہی بند کردیا گیا تھا، اسی طرح 2017 میں خاران، چاغی، قلات اور دیگر پریس کلبس بھی عہدیداروں اور صحافیوں کو دھمکیاں ملنے کے بعد بند کرنے پر مجبور کردیے گئے تھے۔
گزشتہ برس نومبر میں کراچی پریس کلب کے احاطے میں مسلح اہلکار داخل ہوگئے تھے اور یہ کلب کی 60 سالہ تاریخ میں پہلا واقعہ تھا، کے پی سی انتظامیہ نے اسے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کی جانب سے آزادی صحافت کو محدود کرنے کے سلسلے کی کڑی قرار دیا۔
بعدازاں 13 نومبر کو دہشت گرد حملے کے خطرے کے پیشِ نظر مقامی انتظامیہ کے حکم پر باجوڑ پریس کلب کو بند کردیا گیا تھا اس حوالے سے پریس کلب صدر نے بتایا تھا کہ اعلیٰ افسران نے انہیں خطرے سے آگاہ کیا تھا جس کی وجہ سے اراکین کو 10 دن کے لیے پریس کلب بند کرنا پڑا۔
دوسری جانب صحافیوں کی رہائش گاہوں پر حملہ بھی دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے کیوں اس طرح وہ اپنے اہلِ خانہ کے حوالے سے محتاط ہوجاتے ہیں، جس طرح 2018 میں شہید بے نظیر آباد کے علاقے میں چیننل 24 کے رپورٹ منظور بوگھیو کے گھر پر حملہ کیا گیا۔
یہ مضمون 3 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔