دنیا

جولین اسانج کا خود کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار

صحافت کرنے پر سرنڈر کرنے کی خواہش نہیں رکھتا، جس نے بہت سے ایوارڈز جیتے اور کئی افراد کی حفاظت کی، جولین اسانج

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے لندن کی عدالت کو بتایا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ انہیں خفیہ امریکی دستاویزات شائع کرنے پر امریکا کے حوالے کیا جائے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جولین اسانج بذریعہ ویڈیو لِنک ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ میں پیش ہوئے جہاں امریکی حکام کے وکیل نے خفیہ امریکی دستاویزات شائع کرنے میں ان کی مبینہ شمولیت سے متعلق مختصربات چیت کی۔

جولین اسانج نے جج کو بتایا کہ ’ میں صحافت کرنے پر امریکا کے حوالے کرنے کے لیے سرنڈر کرنے کی خواہش نہیں رکھتا جس نے بہت سے ایوارڈز جیتے اور کئی افراد کی حفاظت کی‘۔

وکی لیکس کے بانی کے خلاف کیس کی آئندہ سماعت 30 مئی کو ہوگی۔

امریکا کی جانب سے جولین اسانج پر سابق انٹیلی جنس تجزیہ کار چیلسا میننگ کے ساتھ مل کر مارچ 2010 میں محکمہ دفاع کے پاسورڈ توڑنے کی سازش کرنے کے الزام عائد کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: برطانیہ: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 50 ہفتے کی قید

چیلسا میننگ نے بغداد میں بطور انٹیلی جنس تجزیہ کار کام کے دوران عراق اور افغانستان جنگ سے متعلق ہزاروں رپورٹس، خفیہ دستاویزات اور کئی ممالک سے متعلق سفارتی راز ولی لیکس کو فراہم کیے تھے۔

جولین اسانج کے حامیوں نے آج (2 مئی) کو عدالت کے باہر احتجاج کیا، ان کا ماننا ہے کہ اگر انہیں امریکا منتقل کیا گیا تو ان پر مزید سنگین الزامات عائد کیےجاسکتے اور انہیں سزائے موت دیے جانے کا خدشہ بھی ہے۔

گزشتہ روز برطانوی جج نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 7 برس قبل عدالتی حکم عدولی کے الزام میں تقریباً ایک برس (50 ہفتے) کی قید کی سزا سنائی تھی۔

واضح رہے کہ جولین اسانج نے اپنی ضمانت کے دوران لندن میں موجود ایکواڈور کے سفارتخانے میں سیاسی پناہ لی تھی تاکہ سویڈن منتقلی سے بچا جا سکے۔

ان پر جنسی ہراساں کرنے اور ریپ کے الزامات عائد کیے گئے تھے لیکن جولین اسانج نے ان دعووں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وکی لیکس شائع ہونے کی وجہ سے عائد کیے گئے تھے۔

11 اپریل کو ایکواڈور کی حکومت کی جانب سے سیاسی پناہ واپس لینے کے بعد سفارتکار نے لندن پولیس کو سفارتخانے میں بلایا جہاں انہوں نے جولین اسانج کو حراست میں لیا۔

47 سالہ جولین اسانج نے سفارتخانے کو چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وکی لیکس کی سرگرمیوں کے لیے سوالات پر انہیں امریکا منتقل کیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ روز وکی لیکس کے ایڈیٹر ان چیف کریسٹن ہرفسون نے سزا کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ’جولین اسانج کی امریکا منتقلی روکنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے‘۔

انہوں نے دوران پریس کانفرنس خبردار کیا کہ ’یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے‘۔

گزشتہ روز جولین اسانج نے عدالت میں پڑھے گئے خط میں 7 سال قبل عدالت کی حکم عدولی پر معافی مانگی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج سفارتخانے سے گرفتار

جولین اسانج نے کہا تھا کہ ’ میں نے وہ کیا جو مجھے اس وقت بہترین لگا یا شاید میں صرف یہی کرسکتا تھا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ میں غیر مشروط طور پر معافی مانگتا ہوں‘۔

امریکا حوالگی کیس کی آئندہ سماعت میں اب صرف مزید کیس مینیجمنٹ باقی اور اس تمام مرحلے میں سالوں لگ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ نومبر 2010 میں سویڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے، تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سویڈن سے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔

بعد ازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے، تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔

جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور اس کے بعد سے وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں مقیم تھے۔