نقطہ نظر

نوجوانوں کے لیے کاروباری ماحول آسان کیسے بنایا جائے؟

اگر پاکستان اپنے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتا ہے تو اسے دیگر منڈیوں سے سبق سیکھنا ہوگا

آج ابھرتی معیشتوں کو جن اقتصادی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے ان کے حل کے لیے انٹرپرنیورشپ اور جدت طرازی (Innovation) بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انٹرپرنیورشپ پر مرکوز معیشت کی طرف بڑھنے سے ملک کے اندر چھپی صلاحیتوں کو ٹھیک اسی طرح باہر لانے میں مدد مل سکتی ہے جس طرح متعدد منڈیوں میں ٹیکنالوجی کامیاب کہانیوں کا باعث بنی ہے۔

پاکستان ایسے کئی اثاثے رکھتا ہے جو دیگر ہم پلہ ممالک رکھتے ہیں۔ پاکستان میں 30 برس سے کم عمر والے افراد کی تعداد 13 کروڑ ہے اور یہ ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے جس کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ آنے والے سالوں میں اس کی ترقی کی رفتار اسی طرح جاری رہے گی۔ انٹرنیٹ فراہم کرنے والے موبائیل کنیکشنز کی تعداد گزشتہ 3 برسوں میں 4 گنا بڑھ چکی ہے اوراور ملک کی ای کامرس مارکیٹ 2018ء میں تجزیہ نگاروں کی جانب سے 1 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کے تخمینوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ مک کنسے (McKinsey) کے سٹی اسکوپ ڈیٹا بیس کے اندازے کے مطابق 2015ء اور 2025ء کے درمیان پاکستان میں 7 لاکھ بڑی آمدن والے اور 21 لاکھ متوسط آمدن والے گھرانوں کا اضافہ ہوگا۔

پورے ملک میں اپنا کاروبار شروع کرنے والے پہلے سے بہتر کاروباری ماحول میں اڑان بھرچکے ہیں، جبکہ حکومت کی جانب سے انکیوبیشن (نیا کاروبار شروع کرنے والوں یا کاروبار کا آغاز کرنے والوں کو خدمات کی فراہمی) اور رعایات کی فراہمی سے نئے کاروبار میں سرمایہ لگانے والوں کا دھیان پاکستان کی طرف کھینچا ہے۔ لیکن اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اب بھی اقدامات کرنے باقی ہیں۔

وینچر کیپیٹل انویسٹنگ (نئے کاروبار کے لیے دیے جانے والے سرمایہ) کو اگر پیمانے کے طور پر استعمال کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات فی کس وینچر کیپیٹل انویسٹنگ 40 ڈالر رکھتا ہے، جبکہ پاکستان صفر اعشاریہ 10 ڈالر کے ساتھ سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے خطے میں واقع ہم پلہ ملکوں سے بھی کم رکھتا ہے۔ اس کے باجود بھی کاروباری ماحول میں زبردست موقع دستیاب ہے۔ ٹھوس منصوبہ بندی، متفقہ پالیسی ایکشن اور نجی شعبے کی پیش قدمیوں کے ساتھ پاکستان انٹرپرنیورشپ کو 3 مختلف جگہوں پر عوامی فائدے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

سرکاری شعبے کو بنیادی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان میں کاروبار کی شروعات کرنے کے لیے سلسلہ وار 6 مرحلوں سے گزرنا ہوتا ہے، جس میں 4 مختلف سرکاری محکموں کا عمل دخل شامل ہوتا ہے اور اس پورے مرحلے میں 2 ماہ تک لگ جاتے ہیں۔ یہی بات زیادہ تر انٹرپرنیورز کو اپنے کاروبار کو باضابطہ صورت دینے میں مشکلات کا باعث بنتی ہے، بدلے میں ان کی کریڈبلٹی متاثر ہونے کے باعث ان کی پیداوار سست روی کا شکار ہوجاتی ہے، قرضہ کی سہولیات تک رسائی قطع ہوجاتی ہے اور بیوروکریٹک لاگت برداشت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کو 80 سے زائد ممالک کے تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جن ممالک میں سہل طریقہ کار تھا وہاں کاروباری رجسٹریشن کی شرح ان ممالک کے مقابلے میں دگنی تھی جہاں اس قسم کے بہتر طرز عمل کی کمی تھی۔

پالیسی اصلاحات اور انفرااسٹریچر کو بہتر بنانا واضح طور پر 2 ایسے اہم کام ہیں جن میں حکومت مدد کرسکتی ہے۔ سنگل ونڈو مراکز سے لے کر پھرتی سے کام کرنے والی انکارپوریشن کو متعارف کروانے سے نیا کاروبار شروع کرنے والوں کا وقت اور پیسہ دونوں کی بچت ہوسکتی ہے، اس قسم کی پیش قدمی سے پرتگال میں 17 فیصد زیادہ کاروبار کا اندراج ہوا۔

ڈیجیٹل ادائگیوں یا موجودہ اداروں میں جدت لانے جیسے انفرااسٹریچر سے متعلقہ چھوٹے بڑے میکنزم میں بہتری نیا کاروبار شروع کرنے والوں کی صلاحیت میں مستقل اضافہ کی وجہ بن سکتی ہے۔ مثلاً نائیجیریا میں کریڈٹ بیورو کی معاونت کے لیے مرکزی ڈیٹا مجموعہ (centralised data hub) پر سرمایہ کاری اور چھوٹے و متوسط کاروبار کو بہتر انداز میں قرضہ تک رسائی دینے کے نتیجے میں نتیجے میں نان پرفارمنگ لونز میں کے تناسب میں کمی واقع ہوئی جبکہ قرضہ لینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

نجی شعبہ مالیات تک رسائی کے راستے پیدا کرسکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستانیوں کی نصف آبادی باضابطہ مالیاتی خدمات تک رسائی نہیں رکھتی۔ ملک میں موجودچھوٹے سے لے کر متوسط 32 لاکھ کارباری اداروں میں سے صرف ایک لاکھ 88 ہزار نے بینکوں سے قرضہ لیا ہوا ہے۔ پاکستان کے باضابطہ مالیاتی ادارے ایک عرصے سے قائم کاروباری اداروں پر مہربانی کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، اور نتیجتے کے طور پر پیدا ہونے والے فنانشل گیپ کی وجہ سے انٹرپرنیورز نئی مصنوعات کی تکنیکی فیزیبلٹی پر تحقیق سے لے کر کمرشل اور مارکیٹنگ ذرائع کی تعمیر میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔

یہاں پر ملک کے نجی شعبے کے لیے منافع بخش نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو تقویت پہنچانے اور غیرمعمولی سماجی و اقتصادی حیثیت بخشنے کا ایک غیر معمولی موقع دستیاب ہے۔ مقامی منڈی کے علم و فہم کے علاوہ سرمایہ کار گہری بصیرت پر مبنی طریقہ کار (insight-driven approach)، بنیادی اقدار، یا پھر جغرافیائی یا عام صنعتی میدان کی سمت (industry vertical) جیسی بنیادوں پر ممکنہ سرمایہ کاری رسک کو کم سے کم تر کیا جاسکتا ہے۔

تعلیم فراہم کرنے والے ایک ایسا کاروباری ماحول پیدا کرسکتے ہیں جو کاروبار کے لیے مطلوبہ ٹیلنٹ سے بھرپور ہو۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں سے ہر سال 6 لاکھ کے قریب ایک اچھا خاصا ٹیلنٹ پول فارغ التحصیل ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان گلوبل ٹیلنٹ کمپیٹیٹونیس کی درجہ بندی میں 170 میں سے 109 واں نمبر حاصل کرسکا ہے۔

اہر ایک نوجوان کو ایک ایسے کاروباری ماحول کے ساتھ بااختیار بنایا جاسکتا ہے جو انہیں جدت طرازی کا حوصلہ بخشتا ہو، اسی طرح وہ اپنے خوابوں کا حقیقت کا روپ دے سکیں گے۔

اگر پاکستان اپنے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتا ہے تو اسے دیگر منڈیوں سے سبق سیکھنا ہوگا اور نوزائدہ کاروباری ماحول کو تقویت پہنچانے کے لیے سرکاری و نجی شعبے کے درمیان نیٹ ورک قائم کرنا اور دیگر ملکوں کی سماجی ترقی میں مددگار ثابت ہونے والے ڈیجیٹل انقلاب کے فائدوں تک رسائی کو ممکن بنانا ہوگا۔ ابھی ہمارے ہاں کسی کاروبار یا کمپنی کی مالیت ارب ڈالر میں دیکھنے کو نہیں ملی ہے لیکن درست ترغیب کے ساتھ ہم یہ دن بھی جلد دیکھیں گے۔

یہ مضمون 2 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عبدالرحیم سید

لکھاری مک کنسے اینڈ کمپنی میں پارٹر ہیں اور اس فرم میں علاقائی ٹیکنالوجی اور انٹرپرنیورشپ پر ہونے والے کام کے نگران ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔