دنیا

کابل: پارلیمنٹ میں طالبان امن مذاکرات پر بحث، شہر میں نظام زندگی مفلوج

عام تعطیل سے کاروباری برادری کو فی دن 10 لاکھ ڈالر کا نقصان ہورہا ہے، ماہر معاشیات

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امن جرگے کے پیش نظر سیکیورٹی انتہائی سخت کی گئی جس کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہوگئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شہر بھر میں پولیس اور حکام نے لویا جرگہ کی منعقدہ تقریب کے اطراف میں مرکزی شاہراہوں کو بند کردیا۔

4 روزہ لویا جرگہ میں افغانستان بھر سے تقریباً 3 ہزار قبائلی عمائدین، مذہبی رہنماؤں اور سیاست دان طالبان سے امن کے لیے ممکنہ شرائط پر بحث کریں گے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 2010 میں اس ہی مقام پر ہونے والے جرگے میں راکٹ اور اسلحہ سے لیس طالبان کے خودکش حملہ آوروں نے حملہ کیا تھا جبکہ 2011 میں بھی کابل میں 2 روزہ جرگے کے دوران کابل پر 2 راکٹ فائر کیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: طالبان کے ساتھ امریکی کوششوں پر مباحثے کیلئے افغان لویہ جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ

گزشتہ واقعات کے پیش نظر کابل میں سیکیورٹی انتہائی سخت کی گئی جس کی وجہ سے مقامیوں کی نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی اور اس کی وجہ سے ایک ہلاکت اور رمضان سے قبل مصروف ترین ہفتے میں کاروبار رک گیا۔

مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نومولود کو ہسپتال لے جاتے ہوئے والد کو سڑکوں کی بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے بچہ ہلاک ہوگیا۔

کابل میں حکام نے ایک ہفتے کی عام تعطیل کا اعلان کر رکھا ہے۔

کابل میں ٹیکسی ڈرائیور نصراللہ کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ روز میں صرف 2 مسافروں کو شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے جاسکا اور مجھے عام طور پر 15 منٹ میں مکمل ہونے والے اس سفر کو طے کرنے میں 3.5 گھنٹے لگ گئے تھے۔

دکاندار تاج محمد کے مطابق اس جرگے سے صرف غریب افراد کی زندگیوں پر فرق پڑا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شرکا کو سیکیورٹی فراہم کرنا اچھا ہے لیکن اس سے لوگوں کے روزگار پر اثر نہیں پڑنا چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'شہریوں کی ہلاکتیں ظاہر کرتی ہیں کہ افغان جنگ بہت طویل ہوچکی'

ماہر معاشیات سیام پاسرلے کے اندازے کے مطابق عام تعطیل سے کاروباری برادری کو فی دن 10 لاکھ ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان ترقی پذیر ملک ہے اور اس کی معیشت کے انجن کو روزانہ چلتے رہنا چاہیے، ایک ہفتے کی عام تعطیل معیشت کے لیے زہر ہے‘۔

جامع اسمبلی جسے پشتو زبان میں لویا جرگہ کہا جاتا ہے، امریکا اور طالبان کے درمیان مستقل جنگ بندی اور طالبان کے متعدد مطالبات پر افغانستان سے ممکنہ فوجی انخلا پر بحث کے لیے کی جارہی ہے۔

جرگہ کو افغان حکومت کی جانب سے امن مذاکرات، جس میں افغان صدر اشرف غنی کو شامل نہیں کیا گیا ہے، پر اثر انداز ہونے کی کوشش سمجھا جارہا ہے۔

چند معروف افغانی رہنما، صدارتی امیدوار اور سرکاری حکام بشمول ملک کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اس اسمبلی کا بائیکاٹ کیا ہے۔

ایک اور ٹیکسی ڈرائیور احمد خان نے اس اجلاس کو ’وقت کا ضیاع‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کا جرگہ کرنا ہم جیسے غریب عوام جو روز گھر سے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں، کے لیے نقصاندہ ہے، ہم آئندہ چند روز تک اپنے اہلخانہ کا پیٹ کیسے پالیں گے‘۔