یوم آزادی صحافت اور 'بے سہارا صحافی'
یوم آزادی صحافت اور بے سہارا صحافی
صحافت کی آزادی اور عوام تک بروقت درست معلومات کی فراہمی کے لیے قربانیاں دینے والے سیکڑوں صحافیوں، فوٹوگرافرز، کیمرامین اور بلاگرز میں سے ہادی بخش سانگی بھی ایک ہیں، جنہیں پاکستان کے دوسرے بڑے صوبہ سندھ کے شمالی ضلع لاڑکانہ میں 2001 میں پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ہادی بخش سانگی کو تو درست معلومات بروقت فراہم کرنے کی پاداش میں صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن ان کے ہی نوجوان بھتیجے کیمرامین منیر سانگی کو عین اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ 2 قبائل میں ہونے والے تصادم کی کوریج کررہے تھے۔
ٹھیک 13 سال قبل 29 مئی 2006 میں منیر سانگی کو ابڑو اور انڑ برادریوں کے اسلحہ بردار افراد کے جھگڑے کی کوریج کے دوران اس لیے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا کیوں کہ وہ اپنے کیمرے کے ذریعے گولیاں چلانے والے افراد کے چہرے سندھ کے عوام کو دکھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ذمہ دار صحافت اور معلومات کی عوام تک بروقت اور درست فراہمی کے دوران قتل کیے جانے والے نوجوان بھتیجے منیر سانگی کی ہلاکت کو یاد کرتے ہوئے ہادی بخش سانگی آج بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں اور شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے صحافی ریاست میں بے سہاروں کی طرح ہیں۔
ہادی بخش سانگی نے اپنے بھتیجے کے قتل اور خود پر ہونے والے تشدد کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ دراصل قاتلوں کا اصل ہدف وہ تھے، منیر تو ان کے بھتیجے ہونے کے جرم میں مارے گئے۔
ہادی بخش سانگی کے مطابق ان کے بھتیجے منیر سانگی کو اسلحہ بردار افراد نے جان بوجھ کر اور منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا۔
ہادی بخش سانگی نے دعویٰ کیا کہ ان کے بھتیجے کو سابق صوبائی وزیر کے کہنے پر قتل کیا گیا، کیوں کہ وہ مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے۔
ہادی بخش سانگی خود بھی گزشتہ 2 دہائیوں سے اسی گروپ سے منسلک ہیں جس سے ان کے بھتیجے منسلک تھے اور انہیں بھی ان کے بھتیجے کے قتل سے قبل 2001 میں پولیس کی جانب سے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب وہ دیگر 28 صحافیوں کے ساتھ لاڑکانہ جیل سے رہا ہونے والے سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) کے بانی قادر مگسی کی کوریج کر رہے تھے۔