سمانتھا اسمتھ: سوویت یونین میں 13 سالہ امریکی سفیر

کسی بھی عالمی، مقامی، جنگ و امن سے متعلق سنجیدہ سے سنجیدہ مسائل کا بھی حل اگر کسی بچے سے پوچھا جائے تو وہ اتنا سادہ اور آسان ہوگا جسے سننے کے بعد یہ خیال خود بخود ذہن میں آجائے کہ کاش یہ دنیا اتنی ہی سادہ اور آسان ہوتی۔
اگر بچے سے کسی جنگ کی ہولناکی کا ذکر کریں تو وہ انتہائی معصومیت سے کہیں گے کہ اگر جنگ اتنی ہی خراب ہوتی ہے تو پھر اسے ختم کیوں نہیں کردیا جاتا؟ اگر آپ ان سے اپنی ملازمت کا گلہ کریں تو شاید وہ آپ سے کہیں کہ آپ یہ ملازمت چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
ایسی ہی ایک کمسن امریکی بچی نے جب یہ سنا کہ سوویت یونین امریکا پر ایٹمی بم سے حملہ کرنے والا ہے تو اس نے خوفزدہ ہوکر اپنی ماں سے پوچھا کہ اگر سوویت صدر اس قدر خطرناک ہے تو کوئی انہیں روکتا کیوں نہیں؟ اس بچی کی ماں نے پوچھا کہ کیسے؟ تو اس بچی نے کہا کہ انہیں ایک خط بھی تو لکھا جاسکتا ہے، جس میں ان سے ایٹمی جنگ نہ کرنے کا کہا جائے۔ اس بچی کی ماں نے کہا کہ پھر تم ہی ایسا کوئی خط لکھ دو۔
یہ نومبر 1982ء کے دن تھے جب یوری آندرو پوف کو سوویت کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا تھا اور وہ سوویت سربراہ بن گئے تھے۔ امریکی حکومت اور عوام میں ان کی شبیہہ بہت خوفناک تھی کیونکہ انہوں نے پراگ کی بغاوت کو آہنی طریقے سے کچلا تھا۔
کہانی اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ آج سے ٹھیک 36 سال پہلے 1983ء کے اپریل کے مہینے میں سوویت یونین کی حکومت نے اعلان کیا کہ ان کے سربراہ سوویت صدر یوری آندرو پوف نے امریکی ریاست مین کے شہر مانچسٹر میں رہنے والی پانچویں جماعت کی ایک طالبہ سمانتھا اسمتھ کو سوویت یونین کے دورے کی دعوت دی ہے۔
سرد جنگ کے عروج میں جب امریکا میں کمیونزم کے سخت مخالف صدر رونالڈ ریگن کی حکومت تھی اور افغان سرزمین امریکا اور سوویت یونین کے مابین تزویراتی مفادات کی لڑائی کا میدانِ کارزار بنی ہوئی تھی، ایسے وقت میں سوویت سربراہ کا امریکی طالبہ کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت دینا پوری دنیا کے لیے حیران کن تھا، جبکہ عالمی میڈیا بھی اس خبر پر ششدر تھا۔
یہ سب ہوا کیسے؟
دراصل سوویت سربراہ کا یہ اقدام سمانتھا اسمتھ کے اس خط کا جواب تھا جس میں اس نے فکرمندی سے سوویت سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ
’وہ ایک 10 سالہ لڑکی ہے اور وہ یہ سوال پوچھنا چاہتی ہے کہ کیا وہ امریکا پر ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ کرنے والے ہیں؟ اگر نہیں تو وہ اس کو روکنے کے لیے کیا کررہے ہیں؟ میں جانتی ہوں کہ آپ اس سوال کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں تاہم وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ ان کا ملک امریکا پر قبضہ کیوں کرنا چاہتا ہے جبکہ خدا نے اس دنیا کو امن سے رہنے کے لیے بنایا ہے‘۔
اس طالبہ کا خوف اس لیے بھی حقیقی تھا کیونکہ صدر ریگن نے انہی دنوں میں سوویت یونین کو بدی کی بادشاہت قرار دیتے ہوئے امریکا کے دفاعی بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ کردیا تھا تاکہ ممکنہ سوویت حملے کی صورت میں امریکا کا دفاع کیا جاسکے۔
سمانتھا کے خط کا جواب لکھ کر آندرو پوف نے جو سفارتی اقدام اٹھایا اس نے صدر ریگن کی ان کوششوں کو دھندلا دیا جس میں وہ امریکی عوام کے سامنے سوویت یونین کی ازحد منفی تصویر اجاگر کررہے تھے۔
سوویت سربراہ نے سمانتھا کے نام اپنے خط میں لکھا کہ
’سوویت عوام امن سے جینے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ہاں! سمانتھا، میں، میری حکومت اور سوویت یونین کا ہر شہری امن چاہتا ہے۔ ہم ایٹمی ہتھیاروں کا کبھی استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ ہم دنیا بھر کے دیگر سمیت عظیم ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ساتھ پُرامن تجارتی تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر تمہارے والدین تمہیں اجازت دیں تو تم سوویت یونین کا دورہ کرو اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھو کہ سوویت یونین کے شہری کس قدر امن پسند ہیں‘۔
سمانتھا اسمتھ جس کی پیدائش 1972ء میں ہوئی تھی، اس نے یہ دعوت قبول کی اور اپنے والدین کے ہمراہ سوویت یونین کا سفر کیا۔ اس دورے کو دنیا بھر خاص توجہ حاصل ہوئی۔ سمانتھا کو باالعموم پوری دنیا اور باالخصوص سوویت یونین اور امریکا میں امن کے سفیر کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
اس موقع پر امریکی صدر رونالڈ ریگن نے اپنا پیغام بھیجا جس میں انہوں نے لکھا
لکھاری کو سیاسیات، ثقافت اور تاریخ پڑھنے کا شوق ہے اور وہ مذاہبِ عالم کی بھول بھلیوں میں آوارہ گردی کر کے ان کے اسرار و رموز کا کھوج لگانا چاہتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ShozabAskari@