معیشت ٹھیک کرنے کے لیے مناسب بندہ


گزشتہ برس جولائی میں عام انتخابات سے قبل ڈان اخبار کے اوراق میں یہ لکھا گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں اپنے اپنے وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کی خصوصیات گنوانے میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ بتائیں کہ وہ وزیر خزانہ کسے لگانے والے ہیں۔ اسد عمر، اسحاق ڈار، نوید قمر یا سلیم مانڈوی والا جیسے ناموں کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر ان جماعتوں کو اپنے ساتھ ایک مضبوط امیدوار شامل رکھنا ضروری تھا۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تمام حضرات اس ریس کے لیے موزون انتخاب نہیں۔ ان کے پاس وہ کچھ نہیں جو اس کام کے لیے درکار ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں کوئی بھی جماعت مالیاتی شعبے سے ایک وقت سے وابستہ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے والے پرکشش ماہرین کو اپنے ساتھ شامل رکھنے کی طرف دھیان نہیں دے رہی ہیں، اور جب انہیں ملک چلانے جیسا کٹھن کام سونپا گیا ہے تو یہ سن رہ گئی ہیں۔ گھبراہٹ کے عالم میں انہوں نے کسی ’مناسب بندے‘ کی تلاش شروع کردی، یہاں بندی اس لیے استعمال نہیں کیا گیا کیونکہ ہمارے ہاں صرف ایک ہی خاتون وزیرخزانہ کی مثال ملتی ہے وہ بھی صوبائی حکومت میں۔ چونکہ حالیہ دنوں میں باہر سے لائے گئے جس وزیر کو قلمدان دیا گیا ہے ان کا نہ تو کوئی انتخابی حلقہ ہے اور نہ ہی ان کی پارٹی میں کہیں جڑیں ملتی ہیں، لہٰذا ان سے ’نو مین‘ بننے کی امید وابستہ کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ منفرد ترقیاتی اسکیموں پر نا نا کہیں اور سادہ کپڑوں اور وردی والوں میں شامل چند حکمت و فراست رکھنے والے حضرات کی جانب سے ملک پر چڑھائے گئے غیر ملکی قرضے سے چھٹکارہ دلانے کے منصوبوں کو مسترد کردیں۔ جو ایک سب سے بدترین کام وہ کرسکتے ہیں وہ ہے ’یس مین‘ بن جانا۔
اس مضمون کو ’ہم نے تو پہلے کہا تھا‘ جیسی اصطلاحوں سے باز رکھنے کے لیے چلیے اس بات پر زیادہ نہیں سوچتے کہ حال ہی میں کیا کچھ ہوا، بلکہ مستقبل پر دھیان دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحفیط شیخ کو لانے کا مقٓصد موجودہ معاملات پر پیشہ ورانہ اور قابلیت کی ایک نئی چمک دمک کی تہہ لگانا تھا۔ اب چونکہ یہ بھی آسمان سے اترے ہیں اس لیے یہ بھی معاملات کو حکمت عملی کے بجائے تبدیری اعتبار سے سنبھالیں گے۔ انہیں جو پتے دیے گئے ہیں وہ انہی سے کھیل سکتے ہیں، جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ حالیہ ماضی میں انہوں نے پتوں سے کھیلنے کے بجائے یوں کہیے پورے کے پورے پتوں کی ترتیب بدل دی۔
اسمبلیاں تحلیل کرنے کی گنجائش آئین میں تو ہے لیکن قانون میں وضح کردہ طریقہ کار کے مطابق نئے انتخابات کا انعقاد نہ کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ میڈیا کی موجودہ حالت اور اعلیٰ عدلیہ کی پرسکون طبعیت کو دیکھ کر یہ اندازہ نہ لگائیں یہ آنکھیں موندیں بیٹھے رہیں گے۔ میڈیا اداروں کے مالکان کو محض کرنا اتنا ہے کہ اپنے جیبوں کی گہرائیوں میں ہاتھ ڈالنا ہے اور اپنے ملازمین کی واجب الاادا گزشتہ تنخواہوں ادا کرنی ہیں، جس کے بعد ریاست کا چوتھا ستون ایک بار پھر فارم میں آجائے گا، عدلیہ کو اپنے آئینی اختیارات کو ثابت کرنے کے لیے حالیہ ماضی کے بیش فعال طریقوں کی طرف لوٹنے کی ضرورت نہیں۔ اس ادارے کو صرف ضرورت پڑنے پر خاموشی سے اپنا اختیار استعمال کرنا ہوگا اور وہ کرے گا۔