پاکستان

افغان مفاہمتی عمل:ایلس ویلز، زلمے خلیل زاد پاکستان آئیں گے، دفتر خارجہ

دفتر خارجہ میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور افغان مفاہمتی عمل پر تبادلہ خیال ہوگا، ڈاکٹر محمد فیصل
|

دفتر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ دوطرفہ تعلقات اور افغان مفاہمتی عمل سے متعلق بات چیت کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل اور معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کل اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایا کہ امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کے ہمراہ معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز اسلام آباد آئیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: 'ہمسایہ ممالک افغان امن مذاکراتی عمل کی حمایت کریں'

انہوں نے بتایا کہ ’امریکی وفد دونوں ممالک کے درمیان جاری مشاورتی عمل کے ضمن میں پاکستان پہنچ رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان پیر (29 اپریل) کو دفتر خارجہ میں دوطرفہ تعلقات اور افغان مفاہمتی عمل سے متعلق بات چیت ہوگی۔

اس سے قبل امریکا، روس اور چین نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو افغان جنگ کے خاتمے کے لیے جاری مذاکراتی عمل کی حمایت کرنے پر زور دیا تھا۔

واشنگٹن سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ 18 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے حوالے سے ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں امریکا، روس اور چین ایک رائے پر متفق ہوگئے تھے۔

اعلامیے میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا جبکہ اس میں افغان شہریوں کی خواہش کے مطابق امن مذاکرات کو آگے بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا۔

مزیدپڑھیں: زلمے خلیل زاد کا افغانستان کے حوالے سے عمران خان کے بیان کا خیر مقدم

دستاویز میں طالبان کے عہد کو بھی شامل کیا گیا جس کے مطابق طالبان، افغانستان میں داعش کے خلاف لڑیں گے جبکہ القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط ختم کریں گے اور دیگر تنظیموں کو افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

‘پائیدار امن کیلئے طالبان کو خطے کی تبدیلیاں قبول کرنی ہوگی‘

امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ ’افغانستان میں پائیدار امن صرف اسی وقت ممکن ہے جب طالبان خطے کی موجودہ تبدیلیاں کو تسیلم کرلے‘۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طلوع نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر طالبان حکومتی نظام کے پرانے طریقہ کار کو اپنانے کا سوچ رہے ہیں، تو میری ذاتی رائے کہ امن کی گنجائش نہیں بنتی اور جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا افغانستان میں تشدد کے اضافے پر اظہار افسوس

ان کا کہنا تھا کہ’ہم نے افغانستان میں سے امریکی فوجیوں کی بے دخلی پر تبادلہ خیال شروع کردیا لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے میری تمام تر کوششیں انٹر افغان مذاکرات کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرنے پر مرکوز تھی‘۔

زلمے خلیل زاد نے کہا کہ’ واشنگٹن افغانستان میں ہونے والے اخراجات سے چھٹکارہ اور ذمہ دارانہ طریقے سے جنگ بندی چاہتے ہیں تاکہ ساخت برقرار رہے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے طالبان نے افغان حکومت کے 350 افراد پر مشتمل وفد سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا، جن میں 50 خواتین بھی شامل تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ وفد کے اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات، جو شیڈول تھے، میں طالبان وفد کے اراکین کی تعداد صرف 10 تھی۔

یاد رہے کہ طالبان کی جانب سے افغان حکومت سے مذاکرات سے مسلسل انکار کے بعد امریکا نے افغان امن مذاکراتی عمل کے لیے روس اور چین کی حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

واشنگٹن نے اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ تنیوں ممالک کی جانب سے جاری کیا جانے والا مشترکہ اعلامیہ طالبان کو افغان حکومت کے وفد سے 'جہاں تک ممکن ہوسکے' بات چیت کرنے پر حوصلہ فراہم کرے گا۔