نقطہ نظر

کتاب: جادو نگری کو جاتا سیدھا راستہ

کتاب ایک ایسا دروازہ ہے جس میں داخل ہوتے ہی آپ ایک نئی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں اور زندگی کا بہترین سفر شروع ہوجاتا ہے۔

کتاب ایک جادوئی دروازہ ہے، آپ اس پر دستک دیتے ہیں اور ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جو آپ پر جادو کردیتا ہے۔ اس دروازے میں داخل ہوتے ہی آپ ایک نئی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں اور زندگی کا بہترین سفر شروع ہوجاتا ہے، جہاں آپ تہذیبوں اور ثقافتوں کے بارے میں جانتے ہیں، جہاں آپ ماضی میں ہونے والے حالات اور واقعات سے آگاہ ہوتے ہیں، جہاں جادوئی مستقبل کی تاریں جڑتی ہیں، کائنات کو تسخیر کرنے کے نئے راستے ملتے ہیں۔

آپ سمندر کی گہرائیوں اور آسمان کی وسعتوں کا حساب جاننے لگتے ہیں۔ آپ ایک شخص کی ساری زندگی کی محنت کو صرف پڑھ کر صاحبِ علم ہوجاتے ہیں۔ ساری زندگی گزار کر لکھے گئے سفرنامے صرف چند گھنٹوں کے مطالعے کے بعد آپ کے ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں۔ پہاڑوں سے بہتی آبشاریں، ہوا کی گدگدی، دریاؤں کا شور، پرندوں کی چہچہاہٹ، بارش کی چھم چھم، مٹی کی مہک، پھولوں کی خوشبو، درختوں کی لہلہاہٹ، بادلوں کے رنگ اور قوس و قزاح کی لکیر جیسے مناظر پلک جھپکتے ہی ہاتھ باندھے آپ کے سامنے حاضر ہوجاتے ہیں اور آپ جب تک چاہیں اس جادو نگری کے بے تاج بادشاہ بن کر رہ سکتے ہیں۔

کتاب کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ فطرت نے انسان کو سمجھانے اور سکھانے کے لیے کتاب کا ہی سہارا لیا۔ جو چیز کتاب کا حصہ بن گئی وہ صدیوں کے لیے امر ہوگئی اور جو کتاب میں نہ سما سکی وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔

کتاب ایک ایسی دنیا ہے جس کے اندر سما جانے والے حقائق، واقعات، لوگ، تہذیبیں لاکھوں سالوں تک زندہ رہتے ہیں بلکہ اسے یوں کہنا چاہیے کہ کتاب ایک ایسی دنیا ہے جس کے باسیوں کی عمریں لاکھوں سال ہوتی ہے۔ آدم کی غلطی ہو یا حوا کی پیدائش، نمرود کی آگ ہو یا ابراہیم کا معجزہ، فرعون کا دربار ہو یا موسیٰ کا عصا، یوسف کا حُسن ہو یا زلیخا کی محبت، مصر کی خشک سالی ہو یا یوسف کی کامیاب حکمت عملی، مریم کا معجزہ ہو یا عیسٰی کی تبلیغ، حضرت محمد ﷺ کی سچائی ہو یا ابوجہل کی نفرت، رومیو جولیٹ کی محبت ہو یا ہیر رانجھا کے قصے، جولیس سیزر کی بہادری ہو یا بروٹس کی مکاری، پہلی جنگ عظیم ہو یا ایٹم بم کے دھماکے، چاند پر پہلا قدم ہو یا نئے سیاروں کی دریافت، مریخ پر پہنچنا ہو یا بلیک ہول کی تصویر کھینچنا، نیز کہ دنیا کا کوئی بھی عمل ہو وہ صرف اسی وقت تک زندہ رہ سکتا ہے جب تک وہ کتاب کا حصہ رہے گا۔ جس دن وہ کتاب کا حصہ نہیں رہے گا وہ مرجائے گا اور ذہنوں سے ایسا محو ہوگا کہ جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔

کتاب کی طاقت کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگالیں کہ کتاب آپ کو ہنسا سکتی ہے، رُلا سکتی ہے، مایوسی کے سمندر میں غوطے دلواسکتی ہے، مایوسی کے کالے بادلوں کو ہٹا کر روشنی کی نئی کرنیں بچھا سکتی ہے۔ یہ کتاب آپ کی زندگی بنا بھی سکتی اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ کتاب آپ کو سلا بھی سکتی ہے اور میٹھے خواب بھی دکھا سکتی ہے۔ آپ کو صوفی سے سائنس دان بنا سکتی ہے۔ آپ کے جذبات کی ترجمانی کرسکتی ہے۔ آپ کے احساسات کو لفظی شکل دے سکتی ہے۔ آپ کے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو کئی گنا بڑھا بھی سکتی ہے۔

کتاب وہ جام ہے جس کے اندر جھانکتے ہی آپ حال، ماضی اور مستقبل سے آشنا ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سواری ہے جو آپ کو ایک دنیا سے دوسری دنیا میں سفر کرنے کی سستی ترین سہولت فراہم کرتی ہے۔ نہ جہازوں کے ٹکٹ، نہ سیٹلائٹ کا جھنجھٹ، نہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور نہ ہی منزل پر نہ پہنچنے کی ناکامی کا خدشہ۔ سکون ہی سکون اور اطمینان ہی اطمینان۔

کتاب کے جادوئی اور طلسماتی کرامات کے باوجود بھی مجھے یہ اقرار کرنے میں کوئی دقت نہیں ہو رہی کہ دنیا میں بسنے والے انسانوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی کتابوں سے محبت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ پھر جن لوگوں میں کتاب بینی کا رجحان تھا، اس کو ٹیکنالوجی کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں سب سے بڑا مسئلہ شرح خواندگی کا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق سال 18ء-2017ء میں شرح خواندگی 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد رہ گئی ہے۔ اس کم ہوتی شرح خواندگی کی بڑی وجوہات میں سے ایک کم آمدنی ہے، جو اب مزید کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ ایک ایسی سائیکل ہے جس کا نتیجہ تباہی اور بربادی کی طرف جارہا ہے، جس کے بارے میں اب بھی کم ہی لوگ سوچ رہے ہیں۔

دوسری طرف پڑھے لکھے لوگوں میں بھی کتاب پڑھنے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ ہمارا نظامِ تعلیم اور اندازِ تعلیم ہے۔اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سارا فوکس کورس مکمل کرنے اور کورس کی کتابیں پڑھانے کی طرف ہے۔ کورس کی کتابوں کا مقصد کتاب کی اہمیت بتانے کے بجائے نوکری حاصل کرنے کے طریقوں کو اجاگر کرنے پر ہے۔ جیسے ہی کورس ختم ہوتا ہے کتابیں ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں اور کچھ مہینوں بعد وہ ذہن سے محو ہونے لگتی ہیں۔

لہٰذا جب تک کتابوں کو نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے زندگی میں ہر وقت سیکھنے اور صاحبِ علم ہونے کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا، تب تک مسئلے کا حل نظر آنا ممکن نہیں۔

اس پورے معاملے میں میری رائے تو بس یہی ہے کہ اگر آپ کا کورس مکمل ہوگیا ہے تو آپ اس کی اسپیشلائزیشن کی طرف چلے جائیں، اگر حالات اجازت نہیں دیتے تو کسی لائبریری کو جوائن کرلیں۔ اپنے گھروں کو اس طرح ڈیزائن کریں کہ اس میں چھوٹا ہی سہی لیکن ایک کتب خانہ ضرور ہو۔ کیونکہ میرا ماننا ہے کہ کتابیں گھروں کی زیبائش کے ساتھ ماحول کو تقدس اور احترام بھی دیتی ہیں۔

گوکہ آج کل ڈیجیٹل کتابوں کا دور ہے لیکن گھروں کے اندر بنائے گئے کتب خانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کتب خانوں کو دن میں کم ازکم آدھا گھنٹہ ضرور دیں۔ اپنی محفل تبدیل کریں۔ ایسے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کریں جن کا تعلق کتاب سے ہو۔ جس دن آپ نے زندگی بھر کے لیے کتاب سے ناطہ جوڑ لیا وہ دن آپ کی شخصیت میں مثبت تبدیلی کا دن ہوگا۔ آپ کو زندگی خوبصورت لگنے لگے گی، آپ کی سوچ کی وسعت زمین و آسمان جتنی ہوگی اور آپ بھی کتاب کی جادوئی دنیا کا ایک حصہ بن جائیں گے۔

آئیں آج ہم سب کتاب پڑھنے، لکھنے اور اس کا حصہ بننے کا عہد کریں تاکہ ہم بھی رہتی دنیا تک زندہ رہ سکیں۔

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔