میرا 8 سالوں سے مسکن ’کوپن ہیگن‘ آخر کیسا ہے؟
کوپن ہیگن کی سیر
تحریر و تصاویر: رمضان رفیق
لیجئے آپ کو آج کوپن ہیگن کی سیر کرواتے ہیں، سکینڈے نیویا کے ملک ڈنمارک کا دارالحکومت اور میرا 8 سالوں سے مسکن۔
جس طرح ہر شہر مختلف حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں، بالکل ویسے ہی کوپن ہیگن بھی 4 حصوں میں بٹا ہوا ہے، مشرقی حصہ اوسٹر برو، مغربی حصہ ویسٹر برو، شمالی حصہ نیرو برو اور جنوبی حصہ آما برو کہلاتا ہے۔
ڈینش زبان میں برو کا مطلب پل کا ہے، آپ ان کو سہولت کے لیے مشرقی، مغربی، شمالی اور جنوبی پل بھی کہہ سکتے ہیں۔ کوپن ہیگن ڈنمارک کے ایک بڑے جزیرے شی لینڈ کا حصہ ہے اور صدیوں سے ایک تجارتی بندرگاہ رہا ہے۔ لفظ کوپن ہیگن بھی دراصل کوب این ہاون نامی لفظوں سے مل کر بنا ہے۔ لفظ کوب کا مطلب خریدنا، ہاون کا مطلب بندرگاہ یا پورٹ کے ہیں، یعنی خریداری والی بندرگاہ۔
بالٹک کے کنارے تاجروں کا یہ خوبصورت مسکن صدیوں سے سمندر کے مسافروں کی منزل رہا اور یہ علاقے وائی کنگز نامی سمندری قزاقوں کے بھی آماجگاہ و مسکن رہے۔
کوپن ہیگن میں درجنوں میوزیم اور تفریحی گاہیں ہزاروں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ یہاں ننھی جل پری بھی بستی ہے۔ ایچ سی اینڈرسن کے بچوں کے لیے لکھی ہوئی کہانی کو 19ویں صدی میں یہاں کی مشہور بئیر بنانے والی کمپنی کارلسبرگ نے مجسم کروایا تھا۔ اب یہ ننھی جل پری شہر کے شمالی ساحل پر ایک پتھر پر براجمان ہے۔
جب بھی کوئی ہم سے ملنے آتا ہے تو ہم اسے اس جل پری کے درشن کو ضرور لے جاتے ہیں۔ پتھر پر پتھر ہوئی بیٹھی یہ جل پری کہانی کے مطابق ایک شہزادے کو دیکھنے نکلی تھی لیکن بس پتھر ہوکر رہ گئی۔
ایک اجلے چمکیلے دن میں اس جل پری کو دیکھنے والوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔ اکثریت کے تصور میں تصویروں سے حقیقت تک جب یہ جل پری آتی ہے تو کئی ایک کو دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ پتھر پر پڑی دھات سے بنی ہوئی ایک مورتی کو کیونکر اتنے سیاح دیکھنے آتے ہیں؟