’اگرچہ یہ قصہ میں کئی جگہ پر سنا چکا ہوں، اگر آپ نے نہیں سنا تو چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس کو سنیں۔ یہ 90ء کی اوائل کی بات ہے میں کراچی یونیورسٹی میں اپنے ایک دوست کے گھر موجود تھا، جہاں شادی کی تقریب ہورہی تھی۔ ظاہر ہے شادی والا گھر تھا تو وہاں خوشی اور رونق کا سما تھا، لیکن اس قدر شور کے باوجود اچانک خوشی کی نئی لہر دیکھنے کو ملی۔ میں حیران ہوا کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ خوشی سے سرشار لوگ، مزید خوش ہوگئے۔ تو میں نے اپنے اس تجسس کو دُور کرنے کے لیے دوست سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی کیا ہوا؟ دوست نے بتایا کہ ابھی ٹیلی فون کے دفتر سے لوگ آئے تھے اور ان کے گھر میں فون کا کنکشن لگا گئے۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس وقت گھر میں فون لگوانا کتنا بڑا کام سمجھا جاتا تھا، جس میں کئی دن لگ جایا کرتے تھے۔ لیکن آج 2012ء میں آپ باآسانی ایک فرنچائز میں جاتے ہیں اور محض چند منٹوں میں فون کنکشن سم کی صورت حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ ہے ٹیکنالوجی‘۔
یہ قصہ سابق اور موجودہ مشیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے 2012ء میں تھری جی سے متعلق ایک کانفرنس میں سنایا تھا، جس کا مقصد کسی حد تک اپنی کامیابی کو سامنے لانا تھا۔
اس وقت یہ ایک اہم کانفرنس تھی۔ چونکہ تھری اور فور جی ٹیکنالوجی پاکستان میں متعارف کروانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں، اور اس سروس کے لائسنسوں کی فروخت سے ملک میں تقریباً ایک ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری متوقع تھی۔