پاکستان

’سی پیک کے اگلے مرحلے میں چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہوگا‘

پاک چین اقتصادی راہداری کے اگلے مرحلے میں غربت کے خاتمے، زرعی تعاون اور صنعتی ترقی پر زیادہ توجہ دی جائے گی، وزیراعظم
|

بیجنگ: وزیراعظم عمران خان نے پاکستان اور چین کے درمیان جاری اقتصادی راہداری (سی پیک ) منصوبے کے نئے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے اب ماحولیاتی تبدیلوں اور غربت کے خاتمے کی جانب زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم انشا اللہ پاکستان کی معاشی صورتحال کا نقشہ اور اپنے عوام کی زندگیاں بدلنے والے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور چین سماجی و معاشی ترقی پر زور دیتے ہوئے اکٹھا سی پیک کے نئے دور میں داخل ہورہے ہیں جس میں غربت کے خاتمے، ذرعی تعاون اور صنعتی ترقی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے گی اس کے ساتھ ہم مزید گہرے تعلقات کے ذریعے تعلیم، ایجادات اور ٹیکنالوجی کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان 4 روزہ دورے پر چین پہنچ گئے

اس کے علاوہ سی پیک کے ساتھ ساتھ خصوصی اقتصادی زونز بھی قائم کیے جارہے ہیں جہاں پاکستانی، چینی اور غیر ملکی کاروباری افراد کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں گے، اس کے ساتھ سی پیک کے اگلے دور میں ہم پاک-چین آزادانہ تجارت کا ایک وسیع معاہدہ کرنے جارہے ہیں۔

بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دنیا میں جیو پولیٹکل غیر یقینی صورتحال اور تجارت میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور رکاوٹوں کی موجودگی میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ تعاون، اشتراکیت، روابط اور مشترکہ خوشحالی کا ماڈل پیش کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی آر آئی منصوبہ گلوبلائزیشن کی جانب سفر کرتی اقوام کے لیے ایک نئی جہت کا آغاز ہے یہاں دنیا میں کئی ممالک کے سربراہان کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے مایوسی کے بجائے اُمید اور محاذ آرائی کے بجائے تعاون کا انتخاب کریں۔

مزید پڑھیں: ون بیلٹ ون روڈ : 21ویں صدی کا سب سے بڑا منصوبہ؟

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب تک 122 ممالک اور 49 بین الاقوامی تنظیموں نے بی آر آئی منصوبے پر دستخط کردیے ہیں یہ ایک تاریخی اور یادگار پیش رفت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اس تغیراتی تبدیلی میں چین کے ساتھ اشتراک پر فخر ہے، ہم بی آر آئی کے اولین اور پرجوش حامیوں میں سے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) بی آر آئی کے بڑے عنصر میں سے ایک ہے جس میں بڑی واضح پیش رفت ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں توانائی کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے، اہم ترین بنیادی ڈھانچے میں خلا کو پر کیا جارہا ہے، گوادر جو ماہی گیروں کا ایک گاؤں تھا اب تیزی سے ایک اقتصادی حب بنتا جارہا ہے اور گوادر ایئر پورٹ ملک کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ’ایک خطہ ایک سڑک منصوبہ آنے والی نسلوں کیلئے تحفہ‘

ان کا کہنا تھا کہ میں چین کی جانب سے پاکستان کی غیر مشروط حمایت پر چینی قیادت کا شکر گزار ہوں، ہماری گہری دوستی، اشتراکیت اور برادرانہ تعلقات ہر قسم کے چیلنجز کے دوران اسی طرح مضبوط، محفوظ اور اٹوٹ رہیں گے۔

وزیراعظم نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بالخصوص تعمیرات، ریلوے، ڈیمز، انفارمیشن ٹینکالوجی اور مصنوعات کے شعبے میں پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے آزادانہ نظام سے فائدہ اٹھانے کی پیشکش کی۔

اس کے ساتھ انہوں نے سی پیک کے تحت تعاون کے 5 نکات بھی پیش کیے جس میں درخت لگانے کے منصوبوں کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی روک تھام، بی آر آئی سیاحتی راہداری کا قیام، بدعنوانی کے خلاف تعاون کے لیے شعبے کا قیام، غربت مٹاؤ فنڈ کی تشکیل اور تجارتی آزادی اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔

پر امن ترقی کے نعرے کے ساتھ آگے بڑھیں گے، چینی صدر

دوسری جانب چینی صدر زی جنگ پنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران دنیا بھر سے آئے رہنماؤں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ عالمی تجارت کے لیے نیا پلیٹ فارم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں سب مل کر مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں اور دنیا کو رہنے کے لیے بہتر جگہ بنانے میں مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان عالمی معاشی جنگ کا اکھاڑہ بن گیا، جیت کس کی ہوگی؟

چینی صدر نے بتایا کہ ماحولیات کے حوالے سے بی آر آئی کا ڈیٹا بیس قائم کیا جاچکا ہے اور ہم بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت گرین انفراسٹرکچر پراجیکٹ بھی شروع کریں گے۔

بی آر آئی کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے چینی صدر نے کہا کہ شراکت دار ممالک کے ساتھ تعلیم، سائنس، کلچر، سیاحت، صحت اور آرکیالوجی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جارہا ہے جبکہ بیلٹ اینڈ روڈ اسٹڈی سینٹر اور نیوز الائنس بھی قائم کیے جاچکے ہیں جس سے منصوبے میں شامل ممالک کے درمیان ہم آہنگی بڑھے گی۔

چینی صدر کا کہنا تھا کہ پر امن ترقی کے نعرے کے ساتھ آگے بڑھیں گے، عالمی شراکت داری، تجارت، سرمایہ کاری اور لبرلزم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور ابھی بھی کئی پہاڑ فتح کرنا باقی ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور چین کا ’سی پیک‘ کو وسعت دینے کا فیصلہ

چینی صدر نے بتایا کہ شنگھائی امپورٹ ایکسپو رواں سال نومبر میں شنگھائی میں ہوگا جس سے بیلٹ اینڈ روڈ شراکت دار ممالک کے لیے بھی نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹلیکچول پراپرٹی پروٹیکشن کے لیے دوست ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور اوپننگ اپ پالیسی کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کیا جائے گا۔

انتخابات کے بعد بھارت سے مذاکرات بھال ہونے کی امید

بعد ازاں چین پاکستان فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ معاشی ترقی اور استحکام کے لیے امن ناگزیر ہے اسلیے ہماری حکومت پڑوسیوں سے تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔

جو کچھ افغانستان میں ہوتا ہے اس کے اثرات پاکستان میں پڑتے ہیں اس کے لیے ہم امریکا اور طالبان کے مذاکرات میں تعاون کر کے افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں جبکہ اس سلسلے میں ایران کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ بھارت میں انتخابات کے بعد اس سے بھی مذاکرات بحال ہونے کی امید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر سی پیک منصوبوں کی جلد تکمیل کیلئے دباؤ بڑھنے لگا

ان کا کہنا تھا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکچین اقتصادی راہداری پاکستان کے لیے رحمت ثابت ہوئی ہے جس کی باعث نہ صرف چین بلکہ دیگر ممالک بھی سرمایہ کار میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سی پیک کو مزید وسعت دی جاچکی ہے جس میں زرعی شعبہ، ٹیکنالوجی، غربت کا خاتمہ بھی شامل کرلیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ سی پیک میں خصوصی اقتصادی زونز بھی شامل ہیں جس سے ہمیں برآمدات میں فائدہ ہوگا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اور جس طرح چین نے صنعتیں لگائیں اقتصادی زونز قائم کیے اس طرح ایک صنعتی پاکستان کے قیام کے لیے چینی تجربے سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں ہیں۔