خیبر پختونخوا: کم عمری، جبری شادی کے خلاف بل منظور، سول سوسائٹی معترف
پشاور: سول سوسائٹی کی متعدد تنظیموں کی جانب سے خیبر پختونخوا میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال کرنے اور گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے پیش کیے گئے بل کی متفقہ منظوری کو سراہا گیا۔
خیبر پختونخوا میں سول سوسائٹی کے نیٹ ورکس، پارٹنرز فار پریوینشن اینڈ ریسپانس (پی 4 پی آر)، جبری اور کم عمری میں شادی کی روک تھام کے لیے صوبائی اتحاد، سول سوسائٹی جوائنٹ ورکنگ گروپ اینڈ خیبر پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورک نے اپنے مشترکہ بیان میں قانون سازوں پر زور دیا کہ معاشرے سے تشدد کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
مذکورہ قرار داد ویمن پارلیمنٹری کاکس کی چیئر پرسن ملیحہ اصغر نے پیش کی اس پر مختلف سیاسی جماعتوں کی خواتین اراکین اسمبلی نے دستخط کیے جن میں نگہت یاسمین اورکزئی، عائشہ بانو، سمیرا شمس، عائشہ نعیم اور شگفتہ ملک شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں، وجوہات اور اُن کے نقصانات
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا ماننا ہے کہ کم عمری میں شادی سے بچوں کی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں خاص کر لڑکیاں اس سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
قرار داد پیش کرنے پر کم عمری اور جبری شادی کی روک تھام کے لیے قائم اتحاد کے صوبائی کو آرڈینیٹر قمر نسیم نے خواتین قانون سازوں کو سراہا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف کے مطابق 2030 تک ملک سے کم عمری میں اور جبری طور پر کرائی جانے والی شادی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کم عمری میں شادی کا خاتمہ لڑکیوں کی صحت ان کے حقوق اور نوجوانی میں بہتر زندگی کے لیے سخت ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: کم عمر بچوں کی شادی:بھارت میں سب سے زیادہ کمی ہوئی،اقوام متحدہ
انہوں نے کہا کہ کم عمری میں شادی کے خاتمے سے نہ صرف صحت کے ڈھانچے پر پڑنے والا نوجھ کم ہوگا بلکہ انسانی جانوں کی تکیلف میں بھی کمی آئے گی اور خواتین اور لڑکیاں موثر طور پر انسانی ترقی کے اہداف کے لیے کام کرسکیں گی۔
اس بارے میں خیبر پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورکس کے کو آرڈینیٹر تیمور کمال کا کہنا تھا کہ کم عمری میں شادی سے نوجوان لڑکیوں کی صحت، زندگیوں اور مستقبل کے حوالے سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی چیئرپرسن نے کہا کہ کم عمری میں شادی سے لڑکیوں کے تشدد کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ خبر 25 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔