پاکستان

2018 میں بیرون ملک مقیم 80 ہزار پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا، رپورٹ

متعدد مرتبہ کوششوں کے باوجود یورپی ممالک پہنچنے میں ناکام ہونے والے افراد انسانی اسمگلروں کے ایجنٹ بن جاتے ہیں، رپورٹ

نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس بیرون ملک مقیم 80 ہزار پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا جن میں نصف تعداد سعودی عرب سے آئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’انسانی اسمگلنگ کی لعنت اور پاکستان کا ردِ عمل‘ کے عنوان سے تیار کردہ رپورٹ ڈان کو موصول ہوگئی جسے آئندہ ماہ شائع کیا جائے گا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کے اندر ہی بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کی جاتی ہے تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو اس کے خلاف کام کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔

این سی ایچ آر کی اس رپورٹ کے محقق غلام محمد نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایسے 50 پاکستانیوں کا انٹرویو کیا ہے جو غیرقانونی طریقے سے پاکستان سے باہر گئے۔

مزید پڑھیں: انسانی اسمگلنگ عروج پر، خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے، اقوام متحدہ

انہوں نے مزید کہا کہ ان انٹرویوز میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ متعدد کوششوں کے باوجود مغربی ممالک میں پہنچنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور انسانی اسمگلنگ گروپ کے ایجنٹ بن جاتے ہیں کیونکہ انہیں مغربی ممالک تک پہنچنے کے راستوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہوجاتی ہے۔

غلام محمد کا کہنا تھا کہ سب سے تکلیف دہ بات جو سامنے آئی وہ نوجوان لڑکیوں سے متعلق تھی کیونکہ انہیں یہ کہہ کر مشرق وسطیٰ لے جایا جاتا ہے کہ وہ وہاں انہیں بہترین نوکری ملے گی لیکن وہاں پہنچا کر ان سے جسم فروشی کا کام لیا جاتا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ یہ خواتین واپس پاکستان بھی نہیں آسکتیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سماجی دباؤ کی وجہ سے ان کے اہلِ خانہ انہیں قبول نہیں کریں گے۔

غلام محمد نے انکشاف کیا کہ زیادہ تر انسانی اسمگلنگ پاک-ایران سرحد پر تافتان کے علاقے سے کی جاتی ہے جہاں ایف آئی اے کی صرف ایک ہی چیک پوسٹ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ میں پناہ کے خواہشمند 70 پاکستانیوں کو ملک بدر کرنے کا حکم

ایف آئی اے کا دفاع کرتے ہوئے محقق کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ہم ایف آئی اے کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ پورے پاکستان میں اس کے صرف 4 ہزار 5 سو اہلکار ہیں اور اتنی قلیل تعداد سے انسانی اسمگلنگ کو نہیں روکا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ غیر قانون طریقے سے پاکستان سے باہر جانے کی کوشش کرنے والوں میں زیادہ تعداد گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے رہائشیوں کی ہے جبکہ کئی پاکستانی ایسے ہیں جو حج اور عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں لیکن واپس نہیں آتے۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان میں ہی انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے ایف اے کے اختیارات کو بڑھانا ہوگا۔

ایک بیان میں این سی ایچ آر کے چیئرمین جسٹس (ر) علی نواز چوہان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مختلف حصوں سے مردوں، خواتین اور بچوں کی انسانی اسمگلنگ کی جاتی ہے، جن میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد آسان ہدف ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری

انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی طریقوں سے آسٹریلیا اور یورپی ممالک میں داخل ہونے والوں میں پاکستانی شہری 10ویں نمبر پر ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں غیرقانون طور پر داخل ہونے والے افغان شہری یورپ جانے کے لیے پاک-ایران سرحد کا ہی استعمال کرتے ہیں۔

چیئرمین این سی ایچ آر کے مطابق پاکستانیوں کے لیے آسان اہداف خلیجی ممالک ہوتے ہیں جہاں وہ بطور ملازم کام کرتے ہیں جبکہ دبئی انسانی اسمگلروں کے لیے جسم فروشی کی ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر کام کرتا ہے جہاں نوکری کا جھانسا دے کر معصوم لڑکیوں اور خواتین کو فروخت کیا جاتا ہے۔