بھارت سمیت دیگر علاقائی طاقتیں اس سانحے کو اپنی مرضی کا رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جبکہ سری لنکن حکومت کے پاس صرف اتنا جواب ہے کہ اس مقامی گروہ کے بیرونِ ملک رابطے ہیں لیکن کس سے؟ اس کا بھی واضح جواب ہے نہ ثبوت۔
سری لنکن حکومت کے اندرونی اختلاف سے کیا مراد؟ اس دہشتگردی کی واردات کو روکنے میں ناکامی کی بڑی وجہ سری لنکن صدر اور وزیرِاعظم کی دشمنی کی حد تک بڑھی ہوئی سیاسی مخالفت ہے۔ سری لنکا کے ایک وزیر نے اعتراف کیا ہے کہ اس واردات کی منصوبہ بندی اور خودکش بمباروں کی موجودگی کی اطلاع 4 اپریل کو مل گئی تھی لیکن اس اطلاع کو چند اعلیٰ عہدیداروں تک ہی محدود رکھا گیا۔ سری لنکن وزیر کا یہ بیان صدر میتھری پالا سری سینا کے خلاف چارج شیٹ ہے، جو پولیس، فوج اور انٹیلی جنس کے امور کے براہِ راست نگران ہیں۔
صدر اور وزیرِاعظم کے درمیان اختلافات پچھلے سال فروری میں اس وقت شروع ہوئے جب حکمران اتحاد کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور صدر نے اس کا ذمہ دار وزیرِاعظم رانیل وکرم سنگھے کو قرار دیا۔ مارچ میں صدر سری سینا نے مرکزی بینک سمیت وزیرِاعظم سے کئی محکموں اور وزارتوں کا چارج واپس لے لیا۔
اختلاف کی وجہ؟
سری لنکا میں اس وقت بنیادی مسئلہ چین اور بھارت بنے ہوئے ہیں۔ یعنی وہاں اس بات کی جنگ ہورہی ہے کہ سری لنکا کس کے ساتھ جائے۔ صدر اور وزیرِاعظم کے درمیان جھگڑا سری لنکا اور بھارت کے درمیان ترقیاتی منصوبوں کے معاہدوں پر ہوا۔ وکرم سنگھے بھارتی منصوبوں پر عمل چاہتے تھے جبکہ صدر اس کے حق میں نہ تھے۔ اکتوبر میں کابینہ اجلاس کے دوران صدر اور وزیرِاعظم کے درمیان شدید جھگڑا ہوا جس کی وجہ کولمبو پورٹ کا مشرقی ٹرمینل بھارت کے حوالے کرنا تھا۔ دوسری طرف امریکا بھی چین کے اثر و رسوخ سے خائف تھا اور بھارتی منصوبوں کی کامیابی چاہتا تھا۔
صدر سری سینا اور وزیرِاعظم رانیل وکرم سنگھے کے درمیان اختلافات گزشتہ برس اکتوبر میں انتہا کو پہنچ گئے کیونکہ صدر سری سینا نے آئین کو پامال کرتے ہوئے وکرم سنگھے کو ہٹا کر مہندا راجا پکسے کو وزیرِاعظم بنا دیا ۔
اس فیصلے کے بعد ملک میں آئینی بحران پیدا ہوگیا کیونکہ وکرم سنگھے اور راجا پکسے دونوں ہی وزیرِاعظم ہونے کے دعویدار تھے۔ سری لنکن پارلیمنٹ نے 2015ء میں 19ویں ترمیم منظور کی تھی جس کے تحت صدر کو حاصل حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ توڑنے کا اختیار ختم کردیا گیا تھا۔ لہٰذا پارلیمنٹ اور عدالتوں نے اس غیر آئینی اقدام کی شدید مذمت بھی کی اور اس کی مزاحمت بھی کی۔
پارلیمنٹ نے 2 بار وکرم سنگھے کو بحال کرنے کا ووٹ دیا جبکہ عدالت نے بھی پارلیمنٹ توڑنے کی کوشش کو غیر آئینی قرار دیا اور یوں 7 ہفتے بحرانی کیفیت کے بعد وکرم سنگھے دسمبر کے وسط میں بحال ہوگئے۔
وزیرِاعظم بحال تو ہوگئے لیکن دونوں رہنماؤں کی کشمکش نے حکومت کو اب تک مسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ اس کی جھلک کولمبو دھماکوں اور اس کے بعد قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں نظر آئی۔ دھماکوں کے فوری بعد وزیرِاعظم نے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا تو کوئی رکن حاضر نہ ہوا۔ ایک دن بعد صدر سری سینا نے غیر ملکی دورے کے بعد قومی سلامتی کونسل اجلاس بلایا تو وزیرِاعظم پہلی بار اس فورم میں شریک ہوئے اور وہاں پہنچ کر انہیں علم ہوا کہ 11 اپریل کو غیر ملکی انٹیلی جنس ادارے نے بھی انتباہ بھیجا تھا لیکن وزیرِاعظم اس پوری صورتحال سے بے خبر تھے۔
قومی توحید جماعت اتنی منظم کیسے ہوگئی؟ حکمرانوں کی چپقلش کی کہانی تو سب پر واضح ہے لیکن مقامی گروہ قومی توحید جماعت اچانک کیسے اتنے بڑے اور منظم حملوں کے قابل کیسے ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جو اس بھیانک واردات کے بعد جیوپولیٹیکل فائدہ اٹھانے والوں کو فائدہ دے رہا ہے۔
سری لنکن حکومت اس تنظیم کو دہشتگرد حملوں کے لیے نامزد کرتی، اس سے پہلے ہی بھارتی میڈیا اور حکومت نے اس کا نام اچھالنا شروع کردیا تھا۔ اس کے بعد بھارتی میڈیا نے اپنے انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ قومی توحید جماعت کے انڈین مجاہدین سے رابطے ہیں۔ اس دعوے کے ساتھ ہی دُور کی کوڑی لاتے ہوئے اس میں پاکستان کے مذہبی گروپوں کو بھی جوڑنے کی کوشش شروع کردی گئی۔
قومی توحید جماعت اس سے پہلے صرف بدھا کے مجسموں کی توڑ پھوڑ میں ملوث رہی ہے۔ اس جماعت کے بارے میں تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اس کا مقصد نفاذ شریعت ہے۔ صرف 10 فیصد مسلم آبادی والے ملک میں نفاذِ شریعت کا خواب اور دعویٰ عقل و فہم سے ماورا ہے۔ اس کی تائید جنوبی ایشیا میں انسدادِ دہشتگردی کی ماہر کرسٹائن فیئر بھی کرتی ہیں۔ کرسٹائن فیئر کا کہنا ہے کہ ’اس سے پہلے اس جماعت نے کبھی گرجا گھروں پر حملہ نہیں کیا۔ پھر سری لنکا میں کبھی بھی مسلم مسیحی کشیدگی نہیں رہی۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس حملے میں کوئی دوسرا گروہ جیسے القاعدہ یا داعش ملوث ہوسکتے ہیں‘۔
دہشتگردی کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ادارے سائٹ انٹیلی جنس گروپ کی ڈائریکٹر ریٹا کاتز نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’گرجا گھروں پر منظم حملہ داعش جیسی کارروائی لگتی ہے‘۔ ریٹا کاتز کی اس بات کو تقویت داعش کے ٹوئٹر اکاؤنٹ اعماق سے ملتی ہے جس پر تامل زبان میں اس حملے کے حوالے سے بیان پوسٹ کیا گیا۔ داعش کے اس دعوے کو بھی مکمل سچ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ داعش شام میں پسپا ہوچکی اور لیبیا میں بھی قدم اکھڑ چکے، لہٰذا ان حالات میں داعش اپنے پیروکاروں کی تسلی کے لیے ایسا دعویٰ کرسکتی ہے۔
سری لنکا نے 2016ء میں کہا کہ ’اس کے 32 شہریوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی اور شام چلے گئے۔ شام میں پسپائی کے بعد داعش کے غیر ملکی جنگجووں نے اپنے اپنے ملک واپسی کی کوشش کی، لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ سری لنکن شہری وطن واپس پہنچ چکے ہیں یا نہیں؟ تاہم ایک اطلاع یہ ہے کہ سری لنکا میں دھماکوں کے بعد 40 افراد گرفتار ہوئے ہیں جن میں ایک کا تعلق شام سے ہے۔
اس طرح کے دہشتگرد حملوں کے لیے مہارت، منصوبہ بندی اور تربیت درکار ہوتی ہے۔ اگر شام سے کچھ لوگ واپس بھی آئے ہیں تو اتنی جلدی اس طرح کے حملوں کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنا، انہیں بھرتی کرنا، تربیت دینا اور پھر منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ کرنا آسان نظر نہیں آتا۔ اس طرح کے حملے کے لیے سیف ہاؤسز، پلاننگ سیل، بم بنانے کے ماہر کے ساتھ ساتھ سامان درکار ہوتا ہے اور یہ سب کسی منظم گروہ کا ہی کام ہوسکتا ہے۔
سری لنکا میں مسلم کمیونٹی کو حکومت اور نظام سے شکایات ضرور ہیں۔ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سے اکثریت بدھ مت اور اقلیتی مسلم کمیونٹی میں کشیدگی بڑھی ہے۔ پہلے تامل اس لڑائی اور نفرت کا شکار تھے لیکن خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد مسلم کمیونٹی اکثریت کی نفرت کا نشانہ ہے۔ پچھلے سال مارچ میں سوشل میڈیا کی افواہوں پر بدھ مت کے پیروکاروں نے مسلمانوں کی دکانوں اور مساجد پر حملے کیے اور کم از کم 3 افراد ان فسادات میں جان سے گئے، جبکہ کئی زخمی ہوئے۔ ان فسادات کے دوران بھی صدر اور وزیرِاعظم نے آپس میں کوئی رابطہ یا مشاورت نہیں کی تھی۔
آصف شاہد
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔