دنیا

سری لنکا دھماکے: 40 مشتبہ افراد گرفتار، ہلاکتیں 310 ہوگئیں

دھماکوں میں 45 بچے بھی ہلاک ہوئے اور متعدد اب بھی زیر علاج ہیں، ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، یونیسیف

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو اور اس کے مضافات میں ایسٹر کے موقع پر ہونے والے بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 310 تک پہنچ گئی جبکہ پولیس نے مبینہ خود کش بمباروں کے استعمال میں رہنے والی وین کے ڈرائیور سمیت 40 افراد کو گرفتار کرلیا۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس اے پی کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے صدر نے ملک کی افواج کو بڑے پیمانے پر مشتبہ افراد کی گرفتاریوں کے اختیارات دے دیئے، خیال رہے کہ یہ اختیارات 26 سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر 2009 میں واپس لے لیے گئے تھے۔

پولیس ترجمان کے مطابق دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 310 ہوگئی۔

گارجین کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بتایا کہ دھماکوں کے نتیجے میں 45 بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: سری لنکا میں 8 بم دھماکے، ہلاکتیں 290 تک پہنچ گئیں

یونیسیف کے ترجمان کرستوفے بولیراک نے جینوا میں رپورٹرز کو بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد بتاتے ہوئے کہا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے دیگر بچے زندگی اور موت کی کشمکش سے گزر رہے ہیں اور بچوں کی ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے۔

صدر تھلنگا سماتھی پالا کی جانب سے منگل کے روز یوم سوگ کا اعلان کیا گیا تھا اور اسی روز سری لنکن حکام نے غیر ملکی سفارت کاروں اور فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) اور دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کو بریفنگ دینے کا منصوبہ بھی بنایا۔

گذشتہ روز حکام نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حملوں کے حوالے سے 2 ہفتے قبل ہی انٹیلی جنس رپورٹ مل گئی تھیں۔

واضح رہے کہ اتوار کے روز ایسٹر کے موقع پر 8 دھماکے، 3 مسیحی عبادت گاہوں اور دیگر ہوٹلز، میں کیے گئے تھے جبکہ ایک دھماکا دوسرے روز پیر کو چرچ کے قریب عمارت میں ہوا تھا۔

دھماکوں کے بعد حکومت نے مختصر مدت کے لیے ملک میں کرفیو نافذ کردیا تھا جبکہ سوشل میڈیا پر پابندی لگادی تھی تاکہ غلط اطلاعات نہ پھیلائی جاسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں چرچ کے قریب ایک اور دھماکا

کرفیو ہٹائے جانے کے بعد بھی سری لنکا کی سڑکوں پر فوج تعینات ہے جبکہ ملک کا بیشتر کاروبار بند ہے۔

سری لنکا کے وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے کا کہنا تھا کہ دھماکوں کا مقصد عدم استحکام تھا اور ساتھ ہی ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے دفاعی اداروں پر 'بھر پور طاقت کے استعمال' پر زور دیا۔

واضح رہے کہ دھماکوں کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ انٹیلی جنس ایجنسیز نے خبردار کیا تھا کہ نیشنل توفیق جماعت حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے لیکن یہ معلومات وزیر اعظم کے دفتر میں دھماکوں کے بعد موصول ہوئیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ سری لنکا کو ان دنوں سیاسی عدم استحکام کا بھی سامنا ہے۔

وزیر صحت راجیتھا سیناراتنے کا کہنا تھا کہ 4 اپریل سے خبردار کیا گیا تھا اور وزارت دفاع نے پولیس چیف کو تحریر کیا تھا، جس میں گروپ کا نام شامل تھا جبکہ پولیس نے 11 اپریل کو عدالتی سیکیورٹی کے سربراہان اور سفارتی سیکیورٹی ڈویژن کو اس حوالے سے تحریر کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: سری لنکا: دھماکوں کے الزام میں 13 افراد گرفتار

انہوں نے مزید بتایا کہ تمام حملہ آور سری لنکا کے شہری تھے جبکہ حکام نے یہ شبہ ظاہر کیا تھا کہ حملے میں غیر ملکی ملوث ہیں۔

حملے کا مقصد تاحال معلوم نہیں ہوسکا، خیال رہے کہ سری لنکا میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت آباد ہے اور 2 کروڑ 10 لاکھ آبادی والے ملک میں ایک قابل ذکر تعداد ہندو، مسلمانوں اور مسیحی برادری کی بھی موجود ہے اور جزیروں پر مشتمل جنوبی ایشیا کا یہ علاقہ اکثر فرقہ وارانہ اور نسلی تنازعات کی زد میں رہتا ہے۔