مشتعل افراد نے صحت مرکز میں آگ لگادی—فوٹو:عارف حیات
دوسری جانب واقعے کے بعد بچوں کے والدین اور مقامی افراد علاقے کے ہیلتھ سینٹر پہنچ گئے اور انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔
اس دوران مظاہرین مشتعل ہوگئے اور انہوں نے دوران احتجاج اسپتال کے دروازے اور کھڑکیاں بھی توڑ دیں۔
مشتعل افراد نے بنیادی صحت مرکز ماشو خیل کو آگ لگادی اور دیواریں بھی گرادیں جبکہ صورتحال مزید خراب ہونے سے روکنے کے لیے پولیس صحت مرکز پہنچ گئی۔
سارے معاملے پر ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر شہباز خٹک ٹاؤن ٹو کا کہنا تھا کہ 34 سو اسکولوں میں ہم نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے، تاہم ایک یا 2 اسکولز سے ایسی افواہیں موصول ہوئیں، اگر ویکسین کا مسئلہ ہوتا تو دیگر مقامات سے بھی اطلاعات آتیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام کسی بھی افواہ کا شکار نہ ہوں اور بچوں کو ویکسین دیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ مشتعل افراد نے بی ایچ یو کو نشانہ بنایا مگر تمام عملہ محفوظ ہے اور حالات کنٹرول میں ہیں۔
بچوں کی حالت خطرے سے باہر
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی انتظامیہ کے مطابق متاثرہ بچوں کی حالت خطرے سے باہر ہے، ہسپتال آنے والے اسکول کے متعدد بچوں کو سر اور پیٹ میں درد کی شکایات تھیں۔
اپنے بیان میں انتظامیہ نے کہا کہ بچے خطرے سے باہر ہیں اور ماہر ڈاکٹر ان کا معائنہ کر رہے ہیں اور حالت مزید بہتر ہونے پر ڈسچارج کیا جائے گا۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ایم ڈی پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اکبر نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ہسپتال میں 75 بچے لائے گئے، ان بچوں کو داخل کرکے طبی امداد دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ بچوں کو گھر بھیج دیا گیا، کچھ کو شام تک بھیج دیا جائے گا، تاہم معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ بچوں نے ہسپتال میں نہ تو الٹیاں کی اور نہ ہی ایسی کوئی علامات نظرآئیں جبکہ کوئی بچہ بے ہوشی کی حالت میں بھی ہسپتال نہیں آیا۔
پولیو ویکسین سے ری ایکشن کا سوال ہی نہیں، صوبائی وزیر صحت
دوسری جانب اس سارے معاملے کے بعد صوبائی وزیر صحت اور سیکریٹری صحت نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کا دورہ کیا اور بڈھ بیڑ ماشوخیل سے لائے گئے بچوں کی عیادت کی اور ان کو دی جانے والی طبی سہولیات کا جائزہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ تمام بچوں کو سر درد، قہہ اور متلی کی شکایات تھیں، اس سلسلے میں سیکریٹری صحت کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ پولیو ویکسین کے بیچ کی شفاف طریقے سے چھان بین کرے تاکہ اصل حقائق تک پہنچا جاسکے۔
صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ یہ وہ والدین ہیں جو پولیو ویکسین سے انکاری ہیں اور وہ مہم کو منفی رخ دینا چا رہے ہیں، اس ویکسین کے استعمال سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں بھی اپنے بچوں کو یہی ویکسین پلاتا ہوں، میرے لیے کوئی خصوصی ویکسین نہیں ہوتی۔
وزیر صحت خیبرپختونخوا ہشام انعام اللہ کا کہنا تھا کہ پولیو ویکسین سے کسی قسم کے ری ایکشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ صورتحال کا باریک بینی سے خود جائزہ لے رہے ہیں، اگر ویکسین میں کسی قسم کی کوتاہی ہوئی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔
صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اب تک کی صورتحال سے لگتا نہیں کہ ویکسین سے بچوں کی حالت بگڑی ہے، تمام بچوں کی حالت خطرے سے باہر ہے، انسداد پولیو مہم کے خلاف اگر کسی نے سازش کی ہے تو اس کی بھی تحقیقات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو پولیو فری بنانا ہم سب کا فرض ہے، پورے ملک میں مہم کامیابی سے چل رہی ہے، صرف 3 اسکولوں سے شکایات آئی ہیں، باقی کہیں سے ایسی شکایات موصول نہیں ہوئیں۔
ہشام انعام اللہ کا مزید کہنا تھا کہ پولیو مہم کے تحت 16 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے، اگر مزید کوئی ایسی شکایات موصول ہوئیں تو دیکھا جائے گا کہ مہم ملتوی کریں یا نہیں، فی الحال مہم جاری رہے گی۔
اس موقع پر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پہلی مرتبہ پشاور میں 10 سال کے عمر کے بچوں کو بھی پولیو کے قطرے پلائے گئے ہیں۔