پاکستان

وکلا کی ماڈل عدالتوں کی مخالفت، 25 اپریل کو احتجاج کا اعلان

ان عدالتوں نے 16 روز میں 17سو زائد مقدمات نمٹائے، وکلا برادری نے اسے انصاف میں جلدی اور اسے کچلنا قرار دے دیا۔

اسلام آباد: لوگوں کو تیزی سے انصاف کی فراہمی کے لیے قائم کی گئی ماڈل عدالتوں نے جہاں یکم اپریل سے اپنے آغاز سے ہی سیکڑوں مجرمانہ کیسز کا فیصلہ دیا وہیں وکلا برداری نے اسے ’انصاف میں جلدی، انصاف کو کچلنا‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں ان عدالتوں کے خلاف مہم بھی شروع کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’تیز‘ ٹرائل کے لیے قائم 116 ماڈل عدالتوں سے 16 دنوں میں قتل اور منشیات کے ایک ہزار 7سو 69 کیسز کا فیصلہ کیا۔

تاہم وکلا برادری کی جانب سے ان اعداد و شمار کو ’کاسمیٹک‘ قرار دیتے ہوئے دھمکی دی گئی کہ اگر حکومت نے 25 اپریل تک ماڈل عدالتوں پر اپنا فیصلہ واپس نہ لیا تو سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر احتجاج کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ہر ضلع میں ماڈل عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں کریں گی، چیف جسٹس

ادھر فوری انصاف کی منتقلی (ای جے آئی) کے نگرانی اور تشخیصی سیل کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 36، سندھ اور خیبرپختونخوا میں 26، 26، بلوچستان میں 24 اور اسلام آباد میں 2 ماڈل عدالتوں نے یکم سے 18 اپریل تک ایک ہزار 7 سو 69 کیسز کا فیصلہ کیا، جس میں 721 قتل اور ایک ہزار 48 منشیات کے مقدمات تھے۔

نگرانی سیل کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ان مقدمات میں سزاؤں کی شرح تقریباً 50 فیصد تھی، تاہم جہاں تک اسلام آباد کی ماڈل عدالتوں کی کارکردگی کی بات ہے تو انہوں نے اب تک 16 دنوں میں 20 قتل اور 24 منشیات کے مقدمات کا فیصلہ کیا۔

یہ مقدمات گزشتہ 5 سے 6 برس میں ٹرائل عدالتوں میں دائر کیے گئے تھے، جنہیں ہائی کورٹ کی جانب سے متعلقہ سیشن ججز کو کیسز کی منتقلی کے اختیار ملنے کے بعد ماڈل عدالتوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔

اسلام آباد کے عدالتی حلقے میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ ماڈل عدالتوں میں منتقل ہونے والے زیادہ تر مقدمات متعلقہ ٹرائل عدالتوں میں مکمل ہونے کے قریب تھے، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ 16 کام کے دنوں میں 20 قتل اور 24 منشیات کے مقدمات کا فیصلہ کیا گیا۔

تاہم دوسری جانب وکلا باڈیز کی جانب سے ماڈل عدالتوں کے لیے مقررہ وقت کی سخت مخالفت کی جارہی ہے۔

پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب چیئرمین حافظ محمد ادریس شیخ کے مطابق ای جے آئی ماڈل عدالتوں سے صرف 4 روز میں قتل کے مقدمے کے ٹرائل کو ختم کرنے کے بارے میں پوچھے۔

واضح رہے کہ پاکستان بار کونسل وکلا کی سب سے بڑی ریگولیٹری باڈی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’انسان ہونے کے ناطے عدالتوں کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ اتنے قلیل وقت میں الزامات فریم کرے، ثبوتوں کی جانچ پڑتال کرے، بیان ریکارڈ کرے اور وکیل دفاع اور وکیل صفائی کے دلائل پر نتیجہ اخذ کرے‘۔

ادریس شیخ کا کہنا تھا کہ ’یہ ماڈل عدالتیں فوجی عدالتوں کے مقابلے میں سخت نظر آرہی ہیں‘ اور مختلف کیسز میں ججز وکیل دفاع کو دلائل دینے کے لیے مکمل مواقع فراہم نہیں کر رہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں'

انہوں نے مزید کہا کہ وکلا برادری ماڈل عدالتوں کے تصور کے خلاف نہیں بلکہ اس تصور کو معقول ہونا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے یہ تجویز دی کہ قتل کے ٹرائل کو 4 روز میں مکمل کرنے کے بجائے ماڈل عدالتوں کو کم از کم 30 روز دینے چاہئیں۔

نائب چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ ماڈل عدالتوں کے پریزائڈنگ افسران کی جانب سے ان کیسز کو منتخب کیا جاتا جو مکمل ہونے کے قریب ہوتے ہیں اور دیگر عدالتوں سے ان عدالتوں میں کیسز کے منتقل ہونے کے بعد ہی ان کا فیصلہ سنا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ماڈل عدالتوں کے اس معاملے پر ہم نے 25 اپریل کو مکمل ہڑتال کی کال دی ہوئی ہے اور ہم اس روز کسی بھی وکیل کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دیں گے‘ اور اگر کسی نے پی بی سی کے کال کی مخالفت میں کام کیا تو اس وکیل کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔