پاکستان

ایمنسٹی اسکیم پر پھر اتفاق نہ ہوسکا، منظوری کابینہ کے اگلے اجلاس تک مؤخر

چند چیزوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے لہٰذا معاملے کو کابینہ کے اگلے اجلاس تک مؤخر کردیا گیا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات

ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر حکومتی کابینہ میں پھر اتفاق رائے نہ ہو سکا اور اس پر مزید بحث کے لیے اسکیم کی منظوری کو وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس تک مؤخر کردیا گیا ہے۔

ایمنسٹی اسکیم پر مشاورت کے لیے خصوصی اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ایمنسٹی اسکیم پر مشاورت کی گئی۔

مزید پڑھیں: وزرا کے اعتراض کے باعث ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظوری ملتوی

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ کابینہ نے ایمنسٹی اسکیم کے تمام پہلوؤں پر بحث کی اور اس دوران تمام آپشن زیر بحث آئے۔

انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ اسکیم میں چند چیزوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے لہٰذا اس معاملے کو کابینہ کے اگلے اجلاس تک مؤخر کردیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ وفاقی کابینہ کے کچھ وزرا کی مخالفت اور تحفظات پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر گزشتہ روز منعقدہ اجلاس بھی ملتوی کردیا گیا تھا۔

اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کابینہ کے کچھ اراکین نے اس اسکیم کے تحت مجوزہ 15 فیصد شرح ٹیکس پر اعتراض کیا تو کچھ اراکین نے اس کی افادیت پر سوالات اٹھائے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتی ایمنسٹی اسکیم سے 81 ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا

اجلاس میں وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید نے پوچھا کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس مجوزہ ٹیکس اسکیم اور گزشتہ حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی اسی قسم کی ٹیکس اسکیم میں کیا فرق ہے۔

دوسری جانب شرح ٹیکس 15 فیصد ہونے پر وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ٹیکس دہندگان کی سہولت کے لیے اس میں کمی کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی مودیز نے گزشتہ سال کہا تھا کہ اگر پاکستانی حکومت کی ٹیکس سے استثنیٰ اسکیم کامیاب ہوجاتی ہے تو اس سے خزانے پر پڑنے والے بیرونی اور مالی دباؤ کو کم کیا جاسکے گا، جو کالے دھن کو سفید بنانے کی سرکاری اسکیم ’ٹیکس اصلاحات پیکج‘ کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے معیشت پر دباؤ کم ہوگا: مودیز

عالمی ادارے نے نشاندہی کی تھی کہ پاکستانی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا جب کہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) کے اخراجات سے پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 20 کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف 12 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں جس میں سے صرف 7 لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں محصولات کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی، پڑوسی ممالک اور ایشیا پیسیفک کے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے جبکہ پاکستان میں محصولات سے حاصل شدہ آمدنی کی ابتر صورتحال کے سبب گزشتہ 25 برس میں کوئی خاص مالی فائدہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر کابینہ میں اختلاف، منظوری نہ دی جا سکی

خیال کیا جارہا ہے کہ کامیاب ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کی آمدنی کا بہتر دور شروع ہوگا، بیرون ملک اثاثوں پر کم سے کم عائد کردہ ٹیکس سے اس اسکیم کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ حکومت نے پاکستانی ٹیکس اسکیم 17-2016 انڈونیشی ٹیکس اسکیم کی طرز پر بنائی تھی جس کے تحت بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے پر 4 فیصد اور وہ اثاثے واپس ملک میں منتقل کرنے پر صرف 2 فیصد ٹیکس ادا کرنا لازم قرار دیا گیا تھا اور اس اسکیم سے پاکستان میں 81ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا تھا۔