’نوٹرے ڈیم گرجا گھر کو خود فرانسیسیوں نے تباہ کرڈالا‘
نوٹرے ڈیم کا یہ گرجا گھر فرانسیسی دارالحکومت پیرس کا سب سے مشہور مذہبی، ثقافتی اور تعمیراتی شاہکار تھا۔ پیرس کے وسط میں ایستادہ اس عمارت سے بلند ہوتے شعلے یہ سوال پوچھ رہے تھے کہ اب اس شہر اور اس گرجے کا مستقبل کیا ہوگا؟ مگر یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اس گرجا گھر کو آگ لگی ہو اور یہ تباہ ہوا ہو۔
سال 1790ء کی دہائی میں انقلابِ فرانس کے دوران غصیلے انقلابیوں نے اس میں گھس کر پہلے پہل تو خوب لوٹ مار کی اور پھر اسے آگ لگادی۔ انقلابیوں نے اسے تباہ کرتے ہوئے کلیسا اور بادشاہ دونوں کے خلاف اپنے بھرپور غصے کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے اسے گرجا گھر تک تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جس طرح بادشاہ لوئی شانزدہم اور اس کی ملکہ میری اینتونیت کی گردن خونی خنجر کی نذر ہوئی اسی طرح اس گرجے میں موجود قدیم مسیحی بتوں کی گردنیں بھی کاٹ دی گئیں۔
سال 1789ء میں پیرس میں واقع باستیل کی قلعہ نما جیل کی انقلابیوں کے ہاتھوں تباہی سے پہلے نوٹرے ڈیم کے اس گرجا گھر کو فرانسیسی کلیسا میں بے پناہ اختیارات حاصل تھے۔ فرانس میں اکثریتی آبادی کیتھولک مسیحی تھی اور کیتھولک مسیحت فرانس کا سرکاری مذہب تھا اور کلیسا نہ صرف لاکھوں ایکڑ قیمتی زرعی اراضی کا مالک تھا بلکہ اس کے پاس عوام پر ٹیکس عائد کرنے کا اختیار بھی تھا۔ غریب فرانسیسی نہ صرف ریاست بلکہ کلیسا کو بھی خراج دیا کرتے تھے۔ کلیسا اور بادشاہت کے اسی بے پناہ اختیار اور ستم نے عوام کو ان کے خلاف بغاوت پر مجبور کردیا۔