پاکستان

کراچی: مبینہ پولیس مقابلے میں بچے کی ہلاکت کا مقدمہ درج، 4 اہلکار گرفتار

جائے وقوع کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جا رہی ہے، فرانزک رپورٹ آنے پر صورتحال مزید واضح ہوجائے گی، ایس ایچ او
|

کراچی میں یونیورسٹی روڈ پر مبینہ مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ڈیڑھ سالہ احسن کے قتل کے جرم میں سچل تھانے کے 4 اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔

احسن کے قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے جس پر بچے کے والدین نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں سے پولیس مقابلے کے درمیان براہ راست فائرنگ پولیس کانسٹیبل امجد نے چھوٹے سرکاری ہتھیار سے کی۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کے مطابق ملزم کے دیگر ساتھی صمد، خالد اور پیارو کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گرفتار چاروں پولیس اہلکاروں کا ریمانڈ لیا جائے گا اور ان کا اسلحہ بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: مقابلے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 سالہ بچہ جاں بحق

دوسری جانب ایس ایچ او سچل تھانہ جاوید ابڑو کا کہنا ہے کہ باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے، جائے وقوع کے اطراف کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان سے تفتیش بھی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے ہتھیار ضبط کرکے فرانزک کے لیے بھجوا دیے ہیں، فرانزک رپورٹ آنے پر صورتحال مزیدواضح ہوجائے گی کہ بچے کو لگنے والی گولی اہلکاروں کے ہتھیار سے فائر کی گئی تھی یا ڈاکوؤں کے اسلحہ سے کی گئی۔

متاثرہ خاندان کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا، ایڈیشنل آئی جی کراچی

بعد ازاں کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کا کہنا ہے کہ گولی لگنے سے بچے کی موت پر افسوس ہے، جس نے بھی فائر کیا غلط کیا ہے ہم معذرت خواہ ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی نے کہا کہ فائرنگ سےجاں بحق بچے کےخاندان کےساتھ ہوں، پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے، متاثرہ خاندان کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا۔

کراچی پولیس چیف نے کہا کہ متاثرہ خاندان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے مطالبات کو پورا کریں گے۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی نے کہا کہ جہاں جہاں جس واقعے میں پولیس کی جانب سے کوتاہی ہوئی ہےہم نے کارروائی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: پولیس مقابلے کی زد میں آکر 10 سالہ بچہ ہلاک

امیر شیخ نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں کراچی میں بھرتی کا معیار بھی یکساں نہیں اس لیے آئی جی صاحب اور ہم سب پولیس اہلکاروں کی تربیت پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کام بہت مشکل ہے ، جو پولیس اہلکار بھرتی ہوئے ہیں ان کی بہتر سے بہتر تربیت کی کوشش کررہے ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی نے کہا کہ بریفنگ پر زور دے رہے ہیں، کہاں فائر کرنا چاہیے، اسلحے کی ہینڈلنگ کی بھی ٹریننگ دی جارہی ہے، بھرے بازار میں فائرنگ سے روکا جارہا ہے لیکن کہیں واردات ہو تو کانسٹیبل اپنا دماغ استعمال کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ گولی جان بوجھ کر ماری گئی تو یہ بات تفتیش میں زیر غور لائے جائے گی کہ غلطی سے گولی لگی یا خاندان سے کوئی دشمنی تھی۔

کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ہماری مزید کوشش ہوگی کہ بھرے بازار میں یا عمارت میں فائرنگ سے گریز کیا جائے اور جانی نقصان نہ پہنچے۔

بچہ سپرد خاک

اس سے قبل گزشتہ روز مبینہ پولیس مقابلے کی زد میں آکر جاں بحق ڈیڑھ سالہ بچے احسن کو گلستان جوہر کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

کمسن احسن کی نمازجنازہ اشرف المدارس سوسائٹی گلستان جوہر میں ادا کی گئی جس میں پولیس افسران اور عزیز و اقارب کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

احسن کے نانا نے پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو ایف آئی آر لکھی گئی بالکل غلط ہے ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں۔

بچے کے نانا نے کہا کہ کھڑے ہوئے رکشے پر فائرنگ کی گئی لہذا ایف آئی آر میں 302 قصاص و دیت آرڈیننس کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ گزشتہ رات ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایسٹ عامر فاروقی نے تصدیق کی تھی کہ اہلکاروں کے فائرنگ کی زد میں آکر 2 سالہ بچہ محمد احسن شیخ جاں بحق ہوا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ صفورہ گوٹھ کے پاس موجود پولیس اہلکاروں سے ایک شخص نے شکایت کی کہ موٹرسائیکل پر سوار دو ڈاکوؤں نے اس کو نقدی محروم کردیا۔

ڈی آئی جی ایسٹ نے بتایا تھا کہ ’پولیس اہلکاروں نے موٹرسائیکل سوار ڈاکوؤں کا تعاقب کیا اور اس دوران پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے رکشہ میں والدین کے ہمراہ سوار بچہ زد میں آگیا۔

مزید پڑھیں: مقابلے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے بچی جاں بحق ہوئی، پولیس کا اعتراف

انہوں نے بتایا تھا کہ ’بچے کے والدین محفوظ رہے‘۔

میڈیا پر واقعہ کی خبر نشر ہونے پر آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام نے واقعہ کا نوٹس لے کر ڈی آئی جی ایسٹ عامر فاروقی کو انکوائری کی ہدایت کرتے ہوئے رپورٹ طلب کی تھی۔

واضح رہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں گزشتہ چند مہینوں کے دوران ڈاکوؤں سے مقابلے کے دوران پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے متعدد مرتبہ معصوم بچے نشانہ بن چکے ہیں۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ 6 اپریل کو لانڈھی کے علاقے میں پیش آیا تھا جس میں 10 سالہ بچہ مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گیا تھا۔

اس سے قبل رواں برس فروری میں نارتھ کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے کی زد میں آکر ایک میڈیکل طالبہ جاں بحق ہوگئی تھی۔

اس طرح کا واقعہ گزشتہ برس اگست میں پیش آیا جب ڈیفنس کے علاقے میں پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے 10 سالہ امل عمر ہلاک ہوگئی تھی۔

بعدازاں کراچی پولیس نے اعتراف کیا تھا کہ ڈکیتوں سے مسلح مقابلے کے دوران پولیس کی جانب سے غیر ارادی طور پر فائر لگنے سے بچی جاں بحق ہوئی۔

اس سے قبل 20 جنوری 2018 کو شاہراہ فیصل پر ساہیوال کا رہائشی مقصود بھی مبینہ پولیس مقابلے کی زد میں آکر جاں بحق ہوا تھا۔

پولیس کی جانب سے مبینہ مقابلے میں قتل کیا گیا تھا تاہم پولیس نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کی وردی میں تین مبینہ ملزمان ایک کار میں سوار تھے۔